نیر مسعود کا شاہد حمید کے نام خط

یہ تحریر 1715 مرتبہ دیکھی گئی

15 مارچ 1995ء

برادرم شاہد حمید صاحب                  السلام علیکم

            اجمل کمال نے “جنگ اور امن” کی دونوں جلدیں بھیج دیں۔ جس طرح کسی عظیم الشان عمارت کو دیکھ کر کچھ خوف بھی محسوس ہوتا ہے اسی طرح آپ کے اس کارنامے کو دیکھ کر محسوس ہوا۔ جس ناول کو پڑھنے کی میری ہمت نہیں پڑتی تھی آپ نے اس کا ترجمہ کر دکھایا، اور ترجمہ بھی کیسا عمدہ! میری انگریزی دانی معمولی سے بھی کچھ کم ہے، پڑھنے کی رفتار بھی اردو کے مقابلے میں بہت سُست ہے، اس لیے امید نہیں تھی کہ “جنگ اور امن” کبھی مکمل پڑھ سکوں گا۔ اب آپ کی بدولت پڑھ سکوں گا۔ بلکہ پڑھنے کی شروعات بھی کر دی ہے۔

محمد سلیم الرحمٰن صاحب سے اس ترجمے کی خبر ملی تھی۔ انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ کام آپ نے محض اپنے شوق سے کیا ہے اور کتاب چھپ جانے کے سوا آپ کو اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ یہ بڑی افسوسناک صورتِ حال ہے۔ ناشر حضرات کتاب پر بڑی سے بڑی رقم خرچ کر دیتے ہیں، کاتبوں، پریس والوں اور جلد سازوں کو پورا معاوضہ دیتے ہیں لیکن لکھنے والوں سے حتی الامکان ادب کی مفت خدمت کرانا چاہتے ہیں۔ امریکا میں محمد حسین آزاد کی “آبِ حیات” کا انگریزی میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کو ترجمے کی نظرِ ثانی کا کام سونپا گیا ہے جس کے لیے فاروقی صاحب ڈیڑھ ڈیڑھ مہینے کے لیے چار بار امریکا جائیں گے (ایک بار جا بھی چکے ہیں) امریکا کے چار سفر، وہاں چھ ماہ قیام کا صرف، پھر نظرِ ثانی کا معاوضہ، اور اس سے کہیں زیادہ اصل مترجم کا معاوضہ، اسی طرح کسی مغربی ادارے کی طرف سے امیر خسرو کی “اعجازِ خسروی” کا ترجمہ ہندوستان میں فارسی کے پندرہ سولہ عالموں سے کرایا گیا ہے۔ ہر مترجم کو بہت معقول معاوضے کے علاوہ ایک ایک با تنخواہ  مددگار بھی دیا گیا۔ ان لوگوں کو بتایا جائے کہ ہمارے یہاں “جنگ اور امن” کا ترجمہ بلامعاوضہ ہوتا ہے تو کس قدر حیران ہوں گے؟

طالسطائی کی “آننا کریننا” اور متعدد دوسری کہانیوں کے اردو ترجمے روس سے شائع ہوئے ہیں، لیکن وہ اتنے رواں اور واضح نہیں ہیں جتنا آپ کا ترجمہ ہے۔ اس عظیم الشان کام پر دلی مبارکباد قبول کیجیے۔

آپ کا

نیر مسعود

جنگ اور امن کے ترجمے پر اردو کے مایہ ناز ادیب نیر مسعود کی تحسین