نعت

یہ تحریر 318 مرتبہ دیکھی گئی

سیرت عشاق ہے ارباب صورت سے الگ

ہے طریقہ ان کا ہفتاد و دو ملت سے الگ

چشم تر ہے ان کی کوثر نخل طوبیٰ ان کی آہ

ان کا باغ دل کشا ہے باغ جنت سے الگ

دل حرم ان کا گریباں ان کا محراب حرم

ہے یہ آئین عبادت ہر عبادت سے الگ

موت ان کی زندگی ہے زندگی ہے ان کی موت

رنج و راحت ان کے ہیں سب رنج و راحت سے الگ

در حقیقت خاص ہیں یہ پیرو شرع رسولؐ

ہے شریعت ان کی ظاہر میں شریعت سے الگ

تیغ غیرت سے ابھی رکھ دیں سر اپنا کاٹ کر

پاؤں پڑ جائے اگر راہ محبت سے الگ

کاہ ہو کر کوہ غم سر پر اٹھا لیتے ہیں یہ

یہ تحمل ہے کہیں انساں کی طاقت سے الگ

خون دل مے ہے تو ہے لخت دل بریاں کباب

لذتیں ان کی ہیں دنیا بھر کی لذت سے الگ

ہیں رجوع قلب سے یہ اس طرح واصل بہ حق

جس طرح معنیٰ نہیں ہوتے عبارت سے الگ

آستیں سے ان کی جیب قدس کا پیوند ہے

دامن مقصود ہے کب دست ہمت سے الگ

یہ ردیف اپنے لئے میں نے کہی ہے اے امیرؔ

ہاتھ محشر میں نہ ہو دامان حضرت سے الگ