نظم

یہ تحریر 220 مرتبہ دیکھی گئی

ہم جانتے ہیں کہ ہم جھوٹ جی رہے ہیں
ہم جانتے ہیں کہ ہم قاتل ہیں
ان خوابوں کے جو ہرروز پنپتے ہیں
ہماری آنکھوں میں
ہم ایک لاچار گور کن کے جیسے ہیں
جو زندہ روحوں کو مِٹی میں گھاڑتا ہے
ہم جسموں سے ڈرتے ہیں
اور جسموں پہ مرتے ہیں
اپنے مجسمے کی آرائِش واسطے
ہم ہر روز اپنی جان کی بَلی چڑھاتے ہیں
خوابوں کا گلا گھونٹ کر انکی چتا جلاتے ہیں
اور اس آگ کی گرمائش سے
اپنے جسم ڈھانچے کی ہڈیاں تاپتے ہیں
ہماری رگوں میں خون نہیں دھواں بھرا ہے
جو ہرروز ہم اپنی خواہشوں کے ماتم پر
سگرٹوں پہ سگرٹ سلگاتے ہیں
میری سنو!
ہم کیوں دوئی کاعذاب جی رہے ہیں؟
کیا ہمیں خوف ہے بے انتہا
خود کاسامنا کرنے سے؟
نہیں!
میرا جی نہیں مانتا ہم خوفزدہ ہیں
ہم عادی ہو چکے ہیں
دوہری زندگی جینے کے
ہمیں جِبلی راحت محسوس ہوتی ہے
خود ترسی اور لذتِ ممنوعہ میں!