اسد محمد خان کے افسانے ”تصویر سے نکلا ہوا آدمی“ کا تجزیاتی مطالعہ

یہ تحریر 1450 مرتبہ دیکھی گئی

Abstract:

This fiction written by Asad Muhammad Khan is included in his collection “Teesray Pehar Ki Kahaniyan.” It is a story about two friends getting acquainted with characters who were sexually abnormal. One character is Saadullah Sathi, who is a soldier. The second character is Shonali, who is in the Kentary to fulfill his lust.It is a fiction written primarily on the subject of sexual exploitation and human use. Shonali rebelled against the soldier and raised a leopard.

یہ افسانہ اسد محمد خان کے مجموعے ”تیسرے پہر کی کہانیاں“ میں شامل ہے۔ یہ دو دوستوں کی مہم جوئی کی داستان ہے جو پھرتے پھراتے ایک جنگل میں جا نکلتے ہیں۔جنگل میں انھیں ایک عمارت نظر آتی ہے جو ان کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ وہ تجسس کی وجہ سے اس گھر میں داخل ہو جاتے ہیں اور اس کا جائزہ لینے لگتے ہیں۔ وہاں ان کا سامنا ایک دو شیزہ سے ہوتا ہے جس کا تعلق توشہر سے ہے لیکن وہ اس ماحول میں سالوں سے رہنے کی وجہ سے نیم وحشی طبیعت کی مالک ہو چکی ہے۔

”پھر ہمیں وہ لڑکی یا عورت نظر آ گئی۔ گھڑ سواری کے خاکی، جودھپورز، پر پوری آستینوں والی گہرے سبز رنگ کی تنگ جرسی اورصدری جیسا روئی بھرا اونچا کوٹ چڑھائے گھڑ سواری کے جوتے پہنے، ڈھیر سارے بالوں کو سبز رنگ کے رومال سے قابو میں کیے، ایک عورت، جسے لڑکیوں میں شمار کیا جا سکتا تھا، درخت کی اوٹ سے نکل کر شاٹ گن سیدھی کیے ہماری طرف بڑھی تھی۔“ ۱؎

وہ ان دو دوستوں کو اپنی داستان سناتی ہے اور مہمان نوازی بھی کرتی ہے۔وہ تیس پینتیس سال کی خوب صورت لڑکی ہے جو وہاں ایک بریگیڈئیر کی قید میں ہے۔ وہ فوجی افسر وہاں گاہے بگاہے آتا رہتا اور لڑکی سے جسمانی تعلقات قائم کرتا ہے۔اسے وہاں زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔ فوجی افسر لڑکی پر اس کی رضا مندی کے ساتھ جسمانی تشدد کرتاہے۔ وہ اس کی قید میں بچپن ہی سے ہے اس لیے وہ اس کی عادی ہو چکی ہے مگر اندر ہی اندر وہ اس سے نفرت بھی کرتی ہے اس کا ذکر اس کے مزاج کو بدمزہ کر دیتا ہے۔

”دوست اچٹتی ہوئی دلچسپی، یا سرسری تجسس میں جھک کے تصویر دیکھنے لگا پھر وہ آپ ہی آپ بڑبڑایا، ”بریگیڈیر؟ اوں؟ بریگیڈیر سیتھی؟ نائیں۔ وہ کیسے؟ تصویر تو بہت پرانی ہے۔ نو!“

جیتنے والی نے دوست کی بڑبڑاہٹ سن لی۔ کہنے لگی، ”ہاں، بہت پرانی ہے۔ بریگیڈیر بھی بہت پرانے ہیں۔ آپ جانتے ہیں انھیں؟“

”کہہ نہیں سکتا۔ اگر یہ بریگیڈیر سیتھی ہے تو ہاں پہچانتا ہوں۔۔ ای وِن، اس کا یہ کنپٹی کا۔۔۔ تِل!۔۔۔“

وہ تقریباً حقارت سے بولی، ”ہوں۔ یہ وہی ہے۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد اللہ سیتھی۔“  ۲؎

اس اسیر لڑکی نے فوجی سے چھپ کر ایک چیتا پال لیا ہے۔ جب فوجی افسر اس لڑکی سے ملنے آتا ہے تو دونوں لڑکے چپ چاپ واپس لوٹ آتے ہیں۔ اور یادکرتے ہیں کہ جنگل میں کہیں ایک خوبصورت لڑکی شونالی اپنے چیتے کے ساتھ موجود ہے۔

کہانی میں سب سے اہم کردار شونالی کا ہے۔ ساری کہانی کا تانا بانا اسی کے گرد بُنا گیا ہے۔ پوری کہانی پڑھنے کے دوران کسی ایک جگہ بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ وہ وہاں سے رہائی چاہتی ہے۔ اسے بہت چھوٹی عمر سے Trap کرکے اپنا عادی بنا لیا گیا ہے۔ اسے ان حالات کے علاوہ کچھ اور سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ا س کے شعور کو Develop ہونے سے پہلے ہی ایسے معاملات میں الجھا لیا گیا ہے۔ اسے بریگیڈئیر پر غصہ بھی آتا مگر اس کے باوجود وہ اسے چھوڑتی نہیں بلکہ ا س کے آنے کا انتظار کرتی ہے۔

بریگیڈئیر کی اپنی سوشل لائف بھی موجود ہے۔ ا سکی اپنی فیملی بھی ہے۔ وہ اکثر شونالی کوچھوڑ کر اپنی اس دنیا میں چلا جاتا ہے۔ اسے بخوبی پتہ ہے کہ یہ لڑکی کہیں بھاگنے والی نہیں ہے۔شونالی زندگی سے بھرپور لڑکی ہے۔ جو ناں صرف اسلحہ استعمال کرنا، کھانا پکانا جانتی بلکہ اکثر و بیشتر اچھا گنگناتی بھی رہتی ہے۔ اس کی محبت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ ایک چیتے کو زیر کر لیتی ہے۔اس کا کردار فوجی افسر سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس کے دل میں اس فوجی کے خلاف غصہ، نفرت اور بغاوت موجود ہے اور جو زیادتی اس کے ساتھ ہوئی ہے اس کا بدلہ لینے کے لیے اس نے سازش کر رکھی ہے یعنی چھپ کر ایک چیتاپال لیا ہے۔ اسے اب کسی انسان پر اعتبار نہیں رہا اس لیے وہ بار بار ایک جملہ بولتی ہے باتیں، باتیں، باتیں۔ جسمانی لحاظ سے عورت کمزورہوتی ہے اسے ایک مضبوط سہارا چاہیے ہوتا ہے۔

 چیتے کافزیکل (Physical) وجود نہیں ہے۔ یہ ایک علامت ہے۔ چیتا بہت طاقتور ہوتا ہے وہ جس پر حملہ کرتا ہے اسے زندہ نہیں چھوڑتا۔ اردو ادب کی کہانیوں میں چندمصنفین نے جانوروں کاذکر کیا ہے ان میں سید رفیق حسین کا نام بہت اہم ہے۔ انھوں نے Wild life پر لکھا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا افسانہ ”کفارہ“ ہے جس میں شیروں کا ذکرموجود ہے۔ عبداللہ حسین کاناول ”باگھ“ کا عنوان بھی کہانی پڑھتے ہوئے قاری کے ذہن میں آ جاتا ہے۔عورت نے اپنے وجود کے اندر چیتا پا ل لیا ہے۔ اتنا عرصہ قید رہنے کے باوجود وہ اندر سے آزاد ہے اس کی بغاوت ہی دراصل اس کا چیتا ہے۔

بریگیڈئیر کا کردار شونالی کے مقابلے میں کمزور کردار ہے۔ کالج کے دور کے حوالے سے جب اس کاذکر آتا ہے تو بطور انسٹرکٹر وہ بہت مقبول اور نارمل آدمی دکھائی دیتا ہے۔ مگر لڑکی کے معاملے میں اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو جیل خانے کے دروازے پر حفاظت کے لیے ہتھیار تھامے کھڑا ہو۔ وہ اس شخص سے زیادہ اسیر اور قابلِ رحم ہے جو قید میں ہے۔

کہانی میں دونوں کردار Pervert ہیں۔ جنسی حوالے سے دونوں ابنارمل کردار ہیں۔ لڑکی مساکیت زدہ ہے جو خود پر تشدد کروا کر جنسی لذت اور تسکین حاصل کر تی ہے جب کہ فوجی سادیت پسند ہے جو جنسی عمل کے دوران لڑکی پر ہنٹر برسا کر اسے جسمانی ایذا دے کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ دونوں کرداروں کا یہ غیر فطری اور ابنارمل رویہ ان کے لیے زیادہ تسکین کا باعث ہے۔ افسانہ نگار بتاتا ہے کہ وہ سالا اُسے ہنٹر سے مارتا ہے اور اس حالت میں اپنی، اس کی تصویریں کھینچتا ہے۔اقتباس دیکھیے:

”…… لمحے بھر کو اس کی بے داغ کہنی سے اوپر، بازو کی صحت مند گلابی جلد میں مجھے ایک دھبا سا دکھائی دیا۔ کسی جانور کے …… جی نہیں! وہ جانور کے دانتوں کا زخم نہیں تھا …… پر میں نے دیکھا کہ اس کے بھرے بھرے بازو کے گھماؤ پر انسانی دانتوں نے ایک گڑھا سا بنادیا تھا جو مندمل ہو گیاتھا……“  ۳؎

منٹو کے کچھ افسانوں میں پرورژن کے کچھ عناصر مل جاتے ہیں مگرانھوں نے پرورژن کا بیان اشاروں کنایوں میں کیا ہے، کھل کر اور واضح بات نہیں کی گئی۔ مثلاً ’پڑھیے کلمہ‘ میں جنسی جرائم دکھائے گئے ہیں۔ رکما نامی عورت مردوں کو پھانستی ہے اور پھر ان کو استعمال کرکے گلے میں لوہے کا تار ڈال کر مار ڈالتی ہے۔ یعنی اس کا پرورژن اس کے ظالمانہ فعل تک پھیلا ہوا ہے۔ جو ابنارمل جنسی رویہ ہے۔ منٹو کا ایک اورافسانہ ’کتاب کا خلاصہ‘ اس کی مثال ہے جس میں باپ بیوی کے مرنے کے  بعد شادی نہیں کرتا کیوں کہ اس کی ایک بیٹی ہے اور اسے اس کی پرورش کرنا ہے مگر بعد میں وہی باپ اس بیٹی سے جنسی تعلق قائم کر لیتا ہے۔ جنسی عمل انسانی زندگی کے لیے ایک فطری ضرورت ہے جب فطری ضرورت کی راہ روکی جاتی ہے تو وہ کسی ابنارمل رویے کی طرف جا نکلتا ہے جیسے ا س کہانی میں باپ کا اپنی بیٹی کے ساتھ ہی جنسی تعلق بنا لینا بھی ابنارمل رویہ ہے، جس کا انجام ناجائز بچے کی پیدائش کی صورت میں ہوتا ہے، یہ ایک جنسی ابنارمیلٹی ہے۔ منٹو کی ایک اورکہانی ”اللہ دتہ“ بھی اسی سے ملتی جلتی کہانی ہے جس میں پہلے باپ اور بیٹی کے جنسی تعلقات کے بارے میں بتایا گیا ہے اور بعد میں جب مرد اپنی بہو کی طرف راغب ہوتا ہے تو بیٹی باقاعدہ حسد کرتی ہے اور اسے سوکن کا نام دیتی ہے۔ یہ بھی عام حالات سے مختلف جنسی رویہ ہے۔

یہ ایک ترقی پسند نقطہ نظر سے لکھا ہوا افسانہ ہے۔ اسد محمد خان کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے اردگرد جہاں بھی انھیں ظلم ہوتا ہوا نظر آتا ہے وہ اس کے خلاف اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرواتے ہیں ا س افسانے کا عنوان ہی ایک علامتی معنویت کا حامل ہے۔ اس افسانے میں ایک تصویر دکھائی گئی ہے جس میں ایک بریگیڈئیر جو کسی زمانے میں کیپٹن تھا۔ شونالی نام کی لڑکی کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے۔ یہ نام بھی علامتی ہے اور افسانے کے کردار بھی۔ بریگیڈیئر وہ اس اقتدار اور اختیار کی علامت ہے جو ہمارے معاشرے میں چند لوگوں کو حاصل ہے اور شونالی اس عوام یا عام آدمی کی علامت ہے۔ جو اس معاشرے میں پائے جاتے ہیں اور Exploited ہیں۔

یہاں معاشرے کو ایک گہری کھائی کی طرح دکھایا گیا ہے۔ اور اس گہری کھائی میں ایک ہی گھر ہے جوصاف ستھرا ہے اور جہاں ہر طرح کی آسائش اور سامانِ تعیش موجود ہے۔ باقی سارا معاشرہ اس کھائی میں رہنے والا ہے۔ اوراس آباد عمارت میں رہنے والے بریگیڈئیر کے لیے شونالی استعمال کی ایک چیز ہے۔ عمارت ایسی ہے جو موسموں کے تمام تغیرات، بادو باراں کے طوفان، بجلیاں، برف باریاں جھیل سکتی ہے۔ یعنی اس پر باہرسے کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی اور وہ اپنی بنیادوں پر مضبوطی سے قائم رہتی ہے۔اقتباس دیکھیے:

”۔۔۔بے مثال حسین گرد و پیش میں دلآویز کنڑی ہاؤس کھڑا ہے جو ایک بظاہر توانا سا ڈُلّاسیہہ، نے اپنی کہنگی اور ہوسناکی سے بولا کر اور اپنی لوٹ مار کی صلاحیت سے بہرہ مند ہو کر صرف سونالی کو وہاں رکھنے، انتظار کرانے کے لیے حاصل کر لیا ہے۔“ ۴؎

بیانات سے پتہ لگتا ہے کہ شونالی کا کردار Passive ہے۔ اس کی اپنی کوئی خواہش یا آرزو، تمنا نہیں ہے بلکہ معمول میں استعمال ہونے والی کسی چیز سے زیادہ اس کی حیثیت نہیں ہے۔ جب کہ Active کردار بریگیڈئیر کا ہے۔ دولت کے ارتکاز سے لے کر اسلحہ کے ذخیرہ اندوزی تک ساری ابنارمیلٹی بریگیڈیئر کی ہے۔ وہ اذیت پہنچا کرلطف لیتا ہے اور اِسے (شونالی) پیسوں کے لیے، Survivalکے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے اس کے پاس دولت اورہتھیار کی طاقت ہے اور ایک بہت بڑے جھوٹ کی طاقت ہے۔ جھوٹ وہی ہے جو ہمارے صاحبانِ اقتدار عام لوگوں سے بولتے ہیں یعنی انھیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ انھیں آرام اور آسائش کی زندگی دے رہے ہیں حالاں کہ وہ انھیں استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور اس میں ان کا ذاتی فائدہ ہوتا ہے۔ عوام ان صاحبانِ اقتدار کے ہاتھوں یا زبان سے لگنے والے زخموں کو چھپاتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں ان کا اپنا وجود کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ افسانہ نگار اس کہانی میں لکھتا ہے کہ:

”احترا م کے قابل یہ بدن انسان کے ہاتھوں کیسی اذیت برداشت کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا؟“ ۵؎

یہ سوالیہ نشان اسد محمد خان نے لگایا ہے کیونکہ اسد محمد خان اس عام مایوس کن صورتحال میں بھی مایوس نہیں ہوتے اور انھیں انسان کی باطنی طاقت پر پورا بھروسہ ہے اور وہ انسان پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ یقینا ایک دن اس تما م صورتحال سے عہدہ برآ ہوگا اور اس سے نکل جائے گا۔افسانے کا آخری حصہ بھی معنی خیز ہے جہاں ایک جملہ ہے کہ ہم ابھی تک اس جنگل کے آس پاس اس کی اتھاہ نظر آنے والی گھاٹی میں موجود ہیں۔ یہاں جنگل ’دنیا‘ نظر آتا ہے اور اتھاہ نظر آنے والی گہرائیاں وہ معاشرے ہیں جو استحصال کا شکار ہیں اور دیکھا جائے تو دنیا کے تمام ممالک ہی اس استحصال کا شکار ہیں جتنا ملک غریب ہے اتنا ہی استحصال وہاں زیادہ ہے۔ایسے ہی کنڑی ہاؤس ہمارے ملک میں بھی چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ افسانہ اپنی زبان و بیان کے اعتبار سے بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان کے پس منظر میں لکھا ہوا لگتا ہے لیکن اپنی پہلی سطح پر اسی سر زمین کی کہانی ہے اور دوسری سطح پر یہ بنگلہ دیش جیسے کسی بھی ملک کی کہانی ہے جس کے عوام اس طرح کے استحصال کا شکار ہوتے آئے ہیں اور ایسے ہی بریگیڈئیر جیسے طاقتور لوگ ایسے کنٹری ہاؤسز میں انھیں اپنی خدمات کے لیے مامور رکھتے ہیں اور غریب ممالک نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی حاکمیت قبول کیے رہتے ہیں اور ان کی ہر پالیسی ہر حکمت عملی بے چوں و چراں تسلیم کرتے رہتے ہیں۔ بریگیڈیئر ایسا ہی کردار ہے جو اپنی ہوسناکی میں لتھڑا ہوا ایک رات کی مدت کے لیے یہاں آ جاتا ہے۔ جب تک یہ شونالی زندہ ہے وہ اسی طرح آتا رہے گا یہاں یہ افسانہ نگار کہہ رہے ہیں کہ جب تک دنیا میں شونالی کا یعنی استحصال ذدہ انسانوں کا وجود باقی ہے اس وقت تک استحصال کرنے والے بھی باقی رہیں گے۔ استحصال کرنے والوں کاہونا استحصال کرنے والوں سے مشروط ہے۔ یہ استحصال کروانے والے اگر انکار کر دیں گے تو کرنے والوں کاوجود بھی ختم ہوجائے گا۔

اگرچہ میرا دوست، شونالی اور میں ہم تینوں یہ بات جان گئے کہ یہ زیادہ دن نہیں چلے گا۔ یہ پُر امید رویہ اسد محمد خان سے مخصوص ہے۔ وہ سمجھتے ہیں اور بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سب کچھ ہمیشہ رہنے والا نہیں ہوتا۔ تغیر اس کائنات کا سب سے بنیاد ی اصول ہے اور اس استحصال ذدہ دنیا میں بھی ایک وقت تغیر آئے گا اور دنیا زیادہ بہترمعاشرہ بننے میں معاون ہو گی اور زیادہ بہتر انسانی معاشرہ حاصل کرنے میں یقینا کامیاب ہوگی اور اس کامیابی کے لیے انھوں نے ایک استعارہ وضع کیا ہے اور وہ ہے چیتا کا استعارہ۔ شونالی نے اپنے سعد اللہ سے چھپ کر ایک چیتا پال لیا ہے۔

ان کی کہانی کی یہ بات حوصلہ دینے والی ہے۔ یہاں چیتا فطرت کی طرف سے ودیعت کردہ قوت کی علامت ہے جو انسان کے اپنے اندر ہی موجود ہے۔ اس چیتے کو عملی یا جسمانی شکل میں افسانہ نگار نے پورے افسانے میں کہیں نہیں دکھایا۔ اسے دونوں کرداروں نے کسی وقت بھی نہیں دیکھا۔ محض اس کی آوازیں سنی ہیں اور اس کے ہونے کو محسوس کیا ہے۔یوں لگتا ہے کہ یہ چیتا شونالی کے اندر ہی ہے یعنی اس کے وجود کا چھپا ہوا حصہ ہے جو بظاہر تو نظر نہیں آتا لیکن موجود ہے اور کسی دن اس وجود سے باہر آ کر بریگیڈئیر جیسے استحصال کرنے والوں کو کھا جائے گا اور اسے ختم کر دے گا۔

یہ انسانی استحصال کے خلا ف لکھا ہوا افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے بتایا ہے کہ استحصال کرنے والے جنسی کج روی کا شکار ہوتے ہیں یعنی Pervert ہوتے ہیں۔ Perversion کی تعریف بہت وسیع ہے۔ جو جنسی پرورژن سے لے کر معاشرتی اور معاشی اورسیاسی پرورژن تک پھیلی ہوئی ہے۔ یعنی جہاں بھی انسان کا استحصال کیا جائے گا۔ جس طریقے سے بھی کیا جائے گا وہ پر ورژن ہے۔ اس طرح یہ افسانہ زیادہ وسعت کا حامل ہوجاتا ہے اور افسانے کا عنوان بھی بہت معنی خیز ہے کہ وہ اصل آدمی نہیں ہے بریگیڈئیر اصل آدمی نہیں ہے بلکہ وہ تصویر سے نکلا ہواآدمی ہے۔ اس کی حقیقت نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہ تصویر میں ہے اور صرف ہماری کمزوری نے اور اپنے آپ پر یقین نہ ہونے نے اس تصویری انسان کو اصل انسان سمجھ کراستحصال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جس دن ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایک Paper Tigerہے۔ فنا ہو جانے والا، کاغذی وجود ہے اس دن ہم اسے مٹا دیں گے۔

عبدالعزیز ملک اس افسانے پہ بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

””تصویر سے نکلا ہوا آدمی“ ایک ایسا افسانہ ہے جو آج کے سیاسی حالات کی داستان سناتا ہے۔ اس افسانے میں فوج کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے جو طاقت، دولت، ہتھیار اور جھوٹ کی خصوصیات سے مالا مال ہے اور اس نے اپنی عیاشی کے خوب انتظامات کر رکھے ہیں۔

”شونالی“ کا کردار یہاں عوام کی نمائندگی کرتا نظر آتا ہے جسے ”سادلّا سیہہ“ اپنی مرضی سے ستانے، رات بھر کے لیے آ جاتا ہے اور اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتا ہے اور اب شونالی نے سادلّاسیہہ سے چھپ کر ایک چیتا پال لیا ہے جو اس کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ افسانے کے آخری جملے افسانے کی کہانی کو قاری پر منکشف کرتے ہیں۔ یہ تکنیک اسد محمد خان کے بیشتر افسانوں میں استعمال ہوئی ہے۔“ ۶؎

حوالہ جات:

۱۔             اسد محمد خان ”تیسرے پہر کی کہانیاں“ القا پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۵ء، ص ۳۱، ۳۲

۲۔            ایضاً۔ ص ۳۸

۳۔            ایضاً۔ ص ۴۲

۴۔            ایضاً۔ ص ۴۶

۵۔            ایضاً۔ ص ۴۲

۶۔            عبدالعزیز ملک، ”جادوئی حقیقت نگاری“ شعبہ اُردو سرگودھا یونی ورسٹی، ۲۰۱۴ء، ص ۲۱۵، ۲۱۶