انور زاہد کی نظم جنگل

یہ تحریر 1223 مرتبہ دیکھی گئی

سماجی و عمرانی شعور ان کے ہاں اوسط سطح سے بلند ھے جس میں پختگی جھلکتی ھے ۔ انور زاہد کی نظم ” جنگل ” میں ہر عہد کی آواز کی باز گشت سنائی دیتی ھے ۔ یہ زیر نظرجدید نظم ” جنگل ” معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز کا احاطہ کرتی ھے اور اقتضائے وقت کے مطابق یہ سماج اور معاشرے کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والے ربط کی مظہر بھی ھے ۔ انور زاہد کی نظم ” جنگل ” کا ایک مضبوط حوالہ ان کا فلسفیانہ شعور ھے ۔ نظم میں یہ اعتراف محض حقیقت پسندی نہیں بلکہ وجودی کرب اور خود اذیتی کا اعلامیہ ھے ۔ تنہائی اور کرب کا شدید احساس ہیجان انگیز جذبات کا پیش خیمہ ثابت ھوتا ھے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ادب زندگی کا عکاس اور آئینہ دار ھوتا ھے اور زندگی میں آنے والی تبدیلیاں ادب میں بھی منعکس ھوتی ہیں ۔ زندگی جتنے موڑ کاٹتی ھے ادب بھی اسی انداز اور مزاج سے اپنے رنگ اور آہنگ بدلتا رہتا ھے اور سیاسی ، سماجی اور تہذیبی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں میں اپنا مقام متعین کرتا ھے ۔ انور زاہد کے یہاں خیالات میں تنوع اور افکار میں گہرائی ھے جس کی وجہ سے ان کی نظم میں روائیتی انداز کی بجائے طرز جدید کا اثر ونفوذ دکھائی دیتا ھے ۔
جدید شعری تناظر میں نظموں کا کینوس بہت وسیع ھو چکا ھے ۔ مادی دنیا کی احتیاجات اور سائنسی ایجادات نے جہاں نظام زندگی اور معاملات زندگی کو متاثر کیا وہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی تہلکہ خیزی نے شعر و ادب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ھے ۔ آج کی نظموں کے موضوعات اور بین السطور میں سائنسی انقلابی باز گشت سنائی دیتی ھے ۔ ان نظموں میں بے ثباتی کا عنصر نمایاں ھے ۔ ماضی اور حال کی سفاکانہ تہذیب میں مماثلت کے ذریعے یہ سوال اٹھایا گیا ھے کہ موجودہ تہذیب و ترقی کے باوجود آج بھی ظلم و تشدد کا دور دورہ ھے ۔ انسان نے جتنی ترقی کی ھے اس کے باوجود انسانیت زبوں حالی اور جبر و استبداد کا شکار ھے ۔ انور زاہد کی فلسفیانہ رو کے اھم زاویوں میں بے ثباتی ، جسم و روح کی کشمکش ، موسموں کا بدلاؤ اور فلسفہ حیات و کائنات شامل ہیں ۔ انور زاہد کے فلسفیانہ شعور کا اھم پہلو تاریخ سے منسلک ھے ۔ جو شکست س ریخت زمانہ اور عروج و زوال کی علامت بن کر ابھرتا ھے اور خوابیدہ ذہنوں پر دستک دیتا ھے ۔ انور زاہد تاریخی واقعات و سانحات پر محض استعجابی اور بے پرواہی سے نظر ڈال کر آگے نہیں بڑھتے بلکہ وہ ماضی میں رہ کر سانس لیتے ، دیکھتے ، سنتے ، عقلی ، جذباتی اور منطقی سطح پر پرکھتے اور اس کا اظہار کرتے ہیں ۔ حقیقی دنیا کی گھٹن آمیز ماحول میں پامال زندگی کے المناک لمحات کو جمالیاتی رنگ میں اپنی نظم میں وھی شاعر پیش کر سکتا ھے جو قنوطی ذہن کا نہ ھو بلکہ اپنے افکار کا رجائی ھو ۔ انور زاہد کے یہاں شاعری میں رجائی پہلو نمایاں ھے اس لئے ان کے یہاں زندگی کے کھنڈروں پر سے گذرتے ہوئے بھی حزن و یاس کے سائے دکھائی نہیں دیتے ۔
انور زاہد کی نظم میں امید اور جستجو کی کاوش ایسے میلانات ہیں جو انہیں زندگی سے منہ موڑنے دیتے ہیں نہ پسپائی اختیار کرنے دیتے ہیں ۔ مسلسل جستجو ، تحرک اور منزل پر رجائی نظر ایسے عناصر ہیں جو ان کی نظم میں تنہائی غم اور الم انگیزی کے باوجود بے حوصلگی کو جنم نہیں دیتے ۔
حقیقی دنیا کے گھٹن آمیز ماحول میں پامال زندگی کے المناک لمحات کو جمالیاتی رنگ میں اپنی نظم میں پیش کر سکتا ھے جو قنوطی ذہنیت کا نہ ھو بلکہ اپنے افکار کا رجائی ھو۔ انور زاہد کے یہاں شاعری میں رجائی پہلو نمایاں ھے ۔
جدید شعری رویوں کے حامل انور زاہد کے ہاں نظموں کے موضوعات اور اسالیب کو برتنے کا انداز جداگانہ ھے ۔ ان کی نظموں کا مندرجہ بالا فنی و فکری تجزیہ ان کی گہری حسیت ، عمیق مشاہدے اور جدت طبع کی عکاس ھے ۔ انور زاہد کے فکر و فن کی سطحیں تخیلاتی اور اسلوبیاتی اعتبار سے جدید رجحانات سے عبارت ہیں جو ان کی نظموں کے نمایاں اور منفرد رخ کا تعین کرتی ہیں ۔ جدید ادبی تناظر میں انور زاہد کی شخصیت ایک رحجان ساز شاعر کے طور پر ابھرتی ہے۔

جنگل
۔۔۔۔۔۔۔۔

زِندگی کے دامن میں
آگہی کے رَستوں کی دھول کے سِوا کیا ہے؟

خار خار رستے ہیں
پیچدار رستے ہیں
آگہی کے جَنگل میں بےشمار رستے ہیں
جو نِگار جِسموں کے زَخم زَخم پھولوں سے
جو بہار موسم کی ہَفت رَنگ جھالر سے
صبح و شام سجتے ہیں
یوں کہ چپ کی وَحشت سے دِل کے کان بَجتے ہیں

دِل غزال رَمیدہ، رات کے اندھیرے میں
سن کے اپنے پیروں کی چاپ، کانپ جاتا ہے
ہانپ ہانپ جاتا ہے

بیچوں بیچ جنگل کے واہموں کی بستی ہے
واہموں کی بستی میں
بے کواڑ سی کٹیا کے کسی دریچے میں
اک دیے کا پاگل پن
آندھیوں کی یورش سے بے تکان لڑتا ہے
اِک عجیب منظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

اس عجیب منظر نے
حیرتوں کے سینوں میں اضطراب بویا ہے
اضطراب کی کھیتی انقلاب کاٹے گا
انقلاب کی سرخی آفتاب چاٹے گا
آفتاب دھوکہ ہے ۔۔۔۔۔!!!!!
واہموں کی بستی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔