نوحہ

یہ تحریر 2257 مرتبہ دیکھی گئی

یوں ہے حصارِ مرگ میں یہ سہم کا سفر
جس طرح دشتِ ہجر میں اک چیخ کی اڑان
صدیوں کے دائروں میں کوئی جہدِ بے ثمر
ہر سمت موسموں کی فصیلوں کے درمیاں
سب نقش ہیں فنا کی ہوا میں گھرے ہوئے
اک لغزشِ سفر میں ہیں صدیوں کی دُوریاں
شاید یہی ہے چشمِ تماشا کی روشنی
ہر سُو زماں مکاں کے اندھیروں کے درمیاں
اک ناچتے بھنور کی صدا کوندتی ہوئی