نظم

یہ تحریر 242 مرتبہ دیکھی گئی

جہانِ آب و گِل میں تھک کے چُور ہو گئی ہے رات۔
چراغ اور لفظ جھلملائیں گے حکایتوں کے درمیاں
یا میرا دل کہ جس میں آج چُھپ کے سو گئی ہے رات۔

کہیں سراب و خواب میں سمٹ کے کھو گئی ہے رات۔
زمیں جہاں پہ خواب ہے، سراب صرف آسماں۔
جہانِ آب و گِل میں تھک کے چُور ہو گئی ہے رات۔

سنہری چاندنی میں دُکھ کے چند بیج بَو گئی ہے رات۔
کسی کٹھور بھوک کے لیے یہ رنگِ فصلِ رائیگاں۔
یا میرا دل کہ جس میں آج چُھپ کے سو گئی ہے رات۔

وہ جن کے دل میں حزنِ آشیاں تھا ان پہ رَو گئی ہے رات۔
قفس کے گرد رونقیں رہیں بہت رواں دواں۔
جہانِ آب و گِل میں تھک کے چور ہو گئی ہے رات۔

ورق نہ جانے کتنی اُلفتوں کے پھر سے دھو گئی ہے رات۔
جہاں پہ کتنے نام تھے بس اک لکیر ہے وہاں۔
یا میرا دل کہ جس میں آج چُھپ کے سو گئی ہے رات۔

ہمیشہ سایے کی طرح رہے گی ساتھ جو گئی ہے رات۔
اسی میں ہجر کا نمو، اسی میں وصل کا زیاں۔
جہانِ آب و گِل میں تھک کے چور ہو گئی ہے رات۔
یا میرا دل کہ جس میں آج چُھپ کے سو گئی ہے رات۔
۲۰۱۵ء