نظم

یہ تحریر 271 مرتبہ دیکھی گئی

ہر طرف اب دھوپ کے روشن ورق ہیں
جن پہ کوئی لکھ رہا ہے
میری دنیا کی سیاہی سے وہ سچّا نام
جس میں اک ذرا سا پیار بھی ہے۔

اتنے روشن راستوں کی خیرگی میں چلتے چلتے
جتنا کچھ کھویا ہوا تھا مل گیا ہے۔
تیری تنہا یاد پھولوں اور کانٹوں سے ڈھکی
اور دُور تک پھیلی ہوئی دیوار بھی ہے۔

کیسا گہرا صبر ہے دنیا کی ساری روشنائی۔
دل کا غم اب دُھل چکا ہے۔
یہ ہوا آوارگی کی اور وارستہ سے رستے۔
کیسی تنہائی سے ہوں دوچار جو سرشار بھی ہے۔

ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے، روشنی بھی ہے رہائی۔
کون ہے جو میرے دل میں آبسا ہے؟
یک بیک ہونٹوں پہ آتا نام جو میرے لیے اب
اک اَدھورا پَن بھی ہے، اسرار بھی ہے؟

روشنی سے بھی زیادہ مجھ میں کیا وارفتگی ہے؟
دھوپ کے دامن کو سایے سے سِیا ہے۔
آج کا دن میری خاطر ہے محبّت کا سفر جو
آ ر بھی ہے پار بھی ہے۔

کیا اسے بھی اتنی جل تھل روشنی میں یاد ہو گا،
جو مجھے بھولا ہوا ہے،
کون تھا میں، کون سی دنیا تھی میری؟
یہ تمنّا یاد رہ جانے کی جو بیکار بھی ہے۔
۲۰۱۵ء