نظم

یہ تحریر 264 مرتبہ دیکھی گئی

یہاں کتنے ہی پوشیدہ جرائم
تمھاری درگزر کے منتظر ہیں۔
تمھیں منصف، تمھیں ملزم، تمھیں جلّاد ٹھیرے۔
نظایر اور دلایل گو قوی ہیں،
یہاں پر سب با اندازِ دگر ہیں۔

کبھی قاتل کبھی مقتول بن کر
نئے بہروپ میں تم داد خواہ ہو۔
کمر بارِ شواہد سے جھکی ہے۔
عدالت فیصلے کرتی رہے گی۔
انھیں تم قہر سمجھو یا سرا ہو۔

زمانہ ظلم بھی انصاف بھی ہے۔
یہاں پر چاہنا بھی حق نہیں ہے۔
یہاں نہ چاہنا بھی ناسزا ہے۔
کوئی جانے نہ جانے، اس جہاں میں
جو حاصل ہے وہی اتلاف بھی ہے۔

تمھیں جنّت، تمھیں دوزخ یہاں پر،
یہی عالم جو ہے میراثِ آدم؛
سزا کہہ لو یا سمجھو بے وطن ہو یا پرائے۔
قفس میں ہو یا محبس میں یا شاید
ملی ہے سرچھپانے کو سرائے۔

سزا کے مستحق بچتے رہیں گے۔
جو ہوں گے بے خطا پھانسی چڑھیں گے۔
تماشائی نہیں ہوں گے کبھی کم۔
تماشے سیکڑوں رچتے رہیں گے۔
۲۰۱۵ء