نظم

یہ تحریر 436 مرتبہ دیکھی گئی

اسی مُوسلادھار بارش میں دُھندلی
شبیہیں، لبالب چھلکتی ہوئیں بلبلوں میں۔
یہی پل دو پل زندگی ایسے کون و مکاں میں
کہ جس کا نہ آغاز کوئی نہ انجام کوئی۔
یہاں پر کوئی مجھ سے ہم ساز ہے ذرّہ ذرّہ۔

یہ دنیا جہاں زندگی لمحہ لمحہ
گزرتی ہوئی اور یہیں پر
کسی عکس میں اُلفتوں اور ستم گاریوں کی
چکاچوند گردش۔ ہر اک ثانیے میں
ہزاروں ہیں گرداب۔ اور میں اُبھرتا ہوں
ہم دَم نئی صورتوں میں یا غرقاب ہوتا ہوں
ہر پل نئے کیف و کم میں۔
اسی مُوسلادھار بارش میں
بھیگے در و بام، کوچے گلی اور میداں۔

برستی ہی رہتی ہے بے شور بارش جو مجھ میں
اسی سے مری ذرّہ بھر زندگی میں
کبھی پُھوٹ آئے گی غیبی سکونوں کی کونپل؛
اسی زندگی کی ہری شاخ پر موت کی مسکراہٹ۔
۲۰۱۵ء