نظم

یہ تحریر 507 مرتبہ دیکھی گئی

جو بھی اُفتادہ تھا سیدھا ہوا اُلٹا ہو کر
مصرعِ تر کو بصد شوق کیا زیر و زبر

تھی تغزّل کی سبھی عشوہ گری زیرِ نقاب
جا ہی پہنچی ہے کسی ڈھب سے وہاں تک بھی نظر

اُس نے کھولا ہے ورق جب سے زبانِ نَو کا
کچھ پڑا تو ہے سیاقِ رخِ جاناں پہ اثر

ساحلِ شعر پہ چلتی ہے تغیّر کی ہوا
جس میں یلغارِ فسانہ و فسوں موجِ ظفر
۲۰۱۶ء