نظم

یہ تحریر 621 مرتبہ دیکھی گئی

تُو بھی یہیں ہے، مَیں بھی یہیں ہوں
آہستگی میں، خود رفتگی میں۔
کوئی نہیں پر تجھ سی اکیلی۔
روشنیوں میں گویا کرن ہے
تُو تیرگی کی۔
پھبتی ہے تجھ پر کتنی سیاہی۔
ظاہر ہے گرچہ رنگین، بے غم،
باطن میں سادہ ہے بے گناہی۔
زندہ نہ مردہ،
پردوں میں رہ کر اسرار ہے تُو
بے پردگی کا۔

تو ہے نہ دن کی نہ رات کی ہے۔
خود ہی سے کی ہے جو بات کی ہے۔
شاید سدا سے بھوکی پیاسی،
اور سترپوشی کو بس ملی ہے
جِھینی اُداسی۔

میں بھی یہیں ہوں
اور کچھ نہیں ہوں۔
سچّی ہے میری گو رُوسیاہی،
جھوٹی رہے گی تیری گواہی۔

کیسا مداوا، کیسی دُہائی؟
انصاف کی رُت آئے بھی تو کیا،
فریاد ہی جب لب تک نہ آئی۔
چپ کی کوئی داد دیتا نہیں ہے۔
کون بتائے تجھ کو کہ تُو ہے،
تُو دودھ کی دھار، تُو ہی لہو ہے۔
مجھ سے بڑی اور اپنے سے کم تَر،
بیگاریوں کا دفتر کا دفتر۔
جب تک کُھلی ہیں لاچار آنکھیں،
ڈھونڈیں کہاں سے خوابِ رہائی؟
۲۰۱۶ء