نظم

یہ تحریر 685 مرتبہ دیکھی گئی

کس لیے اس دورِ بے ہنگم میں یوں جیتے ہیں کب سے؟
جرعہ جرعہ کس لیے تلخابہِ غم رات دن پیتے ہیں کب سے؟
تِیرہ و تاریک گرد و پیش، دل ظلمات میں گم۔
عزّتِ صد چاک کو بیٹھے ہوے سیتے ہیں کب سے۔

قصّہِ دار و رسن گرچہ تغزّل میں بھلا ہے،
ایسی خونی راہ پر ہم میں سے کوئی کب چلا ہے۔
ایک چلّو بھر تمنّا پہ یہ دعویٰ کوہ کنی کا!
کشٹ ہی کھینچا، کفِ افسوس ہی آخر مَلا ہے۔

کچھ نہ پانے کے لیے اتنی بہت سی جستجو کیوں؟
چاہتے ہیں اِن خیالی بارشوں سے ریگ زاروں میں نمو کیوں؟
کن ہواؤں میں اُڑے جاتے ہیں ہم اب دست پاچہ؟
اپنا آگا کیوں ہے کالا اور پیچھا سُرخ رُو کیوں؟

کھوکھلے سب طنطنے ہیں، تُف ہے اس کم مایگی پر،
شہوتوں کے بوجھ سے پچکی ہوئی اس زندگی پر۔
لقمہِ تر کے لیے کرتے ہیں سجدے بُت کدوں میں۔
طرزِ ابلیسی ہے بھاری ایسی جعلی بندگی پر۔
۲۰۱۶ء