نظم ایسے پڑھیں

یہ تحریر 1423 مرتبہ دیکھی گئی

اس بات میں کوٸی دو راٸے نہیں کہ ماڈرنٹی ہی ماڈرناٸزیشن کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔ سماج جب تک ماڈرنٹی کی دنیا میں آگے نہیں بڑھتا تب تک وہ ماڈرناٸزیشن کا سوچ بھی نہیں سکتا، یا عدم ماڈرنٹی پر ماڈرناٸزیشن کا خیال بے وقعت ہے۔ اگر وہ ایسی سوچ کو عملی رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا عمل اسے مزید کھوکھلا کر دے گا۔ اسی ذیل میں یہاں ایک غور طلب نکتہ پیش کیے دیتا ہوں، ادب وہی اچھا، جو معاصر تقاضوں کی بات کرے، اور معاصر تقاضوں کی عملی صورت ہمیں ماڈرناٸزیشن کی شکل میں ملتی ہے۔ ماڈرناٸزیشن سماج کا بظاہر خارجی روپ ہوتی ہے، لیکن آساٸشات کی دنیا میں یہ سماج کے باطن میں سرایت کر جاتی ہے۔ اور سماج کو جہاں فرد متشکل کرتا ہے وہیں فرد، سماج کا معروضی وجود بھی ہوتا ہے۔ ایک ادیب، ایک شاعر سماج کا ہی فرد ہوتا ہے۔ ماڈرنٹی اور ماڈرناٸزیشن کی ثنویت ایک شاعر پر جب اثر انداز ہوتی ہے تو میرے خیال میں وہاں جدید شاعری اپنا وجود قاٸم کرتی ہے۔

اسی تناظر میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر جدید شاعری کی تفہیم کے حوالے سے قدیم تقاضوں کے اطلاق کو ان پر غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے لیے معاصر اصول و ضوابط کو از حد ضروری جانتے ہیں۔ مطلب قدیم کا اطلاق جدید پر کیسے؟ اسی ضمن میں وہ جدید شاعری میں نظم کے حوالہ سے بات کرتے ہیں، دنیا کی ظلمت کا تذکرہ، قدیم سماج میں اور کلاسیکی شاعری میں ایک مغاٸرت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ جبکہ جدید نظم میں مغاٸرت کی شکل ایک اور روپ اختیار کر لیتی ہے، اور اگلے ہی لمحہ مغاٸرت کا خاتمہ جدید نظم میں ماڈرنٹی سماج کی بنیاد پر ہو جاتا ہے۔ اور یہیں پر ماڈرنٹی، مغاٸرت کی ایک نٸی شکل کو بھی سامنے لاتی ہے، جس کا ذکر ہم پچھلی سطر میں کر چکے ہیں۔ مطلب سماج اور فرد کے درمیان مغاٸرت ماڈرنٹی سماج میں ختم ہو جاتی ہے آپ یہاں اس بات کو مارکسی تناظر میں رکھ کر دیکھیں، اور ماڈرنٹی کا پورے سماج پر اطلاق کر کے دیکھیں، مطلب ہر فرد تک اس کی رساٸی۔ جدید شاعر معاصر تقاضوں کی بات کرتا ہے اور اسی کی پیش کش کرتا ہے۔ جدید نظم نہ تو قدیم سے انحراف کرتی ہے اور نہ ہی مستقبل کی بات کرتی ہے بلکہ معاصر سماج کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی بات کرتی ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں تاریخی اعتبار سے ”روشن خیالی پروجیکٹ“ میں ”عقل“ کے کردار کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور بعد از اسی بنیاد پر ”جدیدیت“ کو میدان صاف ملا، روشن خیالی پروجیکٹ میں عقل کا کردار دو سطح پر تھا، ایک نظری، اور دوسرا عملی، عملی سطح پر اس نے مہابیانیے کی کلیت کو مسترد کر دیا تھا اور اپنی فعلیت میں یکسر معاصر سماجی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوٸے اپنا سفر جاری رکھے ہوٸے تھی جبکہ نظری سطح پر مہابیانیہ ابھی مکمل طور پر معدوم نہیں ہوا تھا، نظری سطح پر عقل ایک طرح سے بے بس نظر آتی ہے چونکہ نظری سطح پر اس کو جواز مہیا کرنے میں سرمایہ دار اپنا مفادی نوعیت کا کردار ادا کر رہے تھے۔

کچھ باتیں یہاں بڑی غور طلب ہیں، پہلی بات روشن خیالی پروجیکٹ میں ”عقل“ کے مرکزی کردار سے جدیدیت کے لیے ایک طرح سے میدان صاف تو ہو گیا تھا لیکن سرمایہ داروں نے روشن خیالی پروجیکٹ کی طرح ”عقل“ کو پھر سے مرکز میں لا کھڑا کیا یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جدیدیت میں بھی عقل کی مرکزی حیثیت برابر جاری رہی۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ روشن خیالی پروجیکٹ میں عقل کے کردار سے جدیدیت کو اضافی نوعیت کا فاٸدہ پہنچا، مطلب روشن خیالی کا یہ کردار ارادتاً جدیدیت کے لیے نہ تھا بلکہ اپنے لیے تھا۔ اسی طرح عقل کے نظری کردار کو بھی جدیدیت میں سرمایہ داروں نے مہابیانیے کی بنیاد پر جواز مہیا کیے رکھا۔ روشن خیالی پروجیکٹ میں عقل کے نظری کردار کی پشت پناہی سرمایہ دار کر رہے تھے جبکہ اسی پہلو کی بنیاد پر سرمایہ داروں نے جدیدیت میں اپنی حیثیت کو واضح کیا، مطلب یہاں سرمایہ دار خود مرکز میں آ گٸے اور عملی سطح پر اس کا جواز نظری حوالے سے مہابیانیے کی بنیاد پر دے رہے تھے۔

جدیدیت بنیادی طور پر آرٹ کی تحریک تھی، اس میں چیزوں کو ماٹیریلاٸز کیا گیا اور ماٹیریلاٸز چیزوں کو صنعتی رنگ دے کر پیش کیا گیا، اسی بنیاد پر صارف کلچر پروان چڑھا، صارف کلچر نے ہر عام وخاص پر اپنے اثرات مرتب کیے، جدیدیت، گو بذاتِ خود ایک خاص لوگوں کی شٸے تھی، لیکن اس کے اثرات جہاں عام پر پڑے وہیں خاص بھی اس سے نہ بچ سکے۔

جدیدیت چونکہ ایک فن کی تحریک تھی اور سماج میں ہی پنپ رہی تھی لہذا سماج کا ہر فرد جہاں اس سے متاثر ہوا وہیں ادبا پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوٸے، ہم یہاں اپنے سماج میں ادب کے حوالے سے بات کریں تو ”نظم“ ہی جدیدیت کے زیر اثر زیادہ پروان چڑھی، جدید ادب میں نظم کو جدید حوالہ سے جہاں اہمیت حاصل ہے وہیں اس کا مطالعہ بھی ایک آرٹ کی متقاضی ہے۔ جدید نظم کو سمجھنے کے لیے جدیدیت کے ڈسکورسز سے جہاں واقفیت ضروری ہے وہیں جدید نظم کی باقاعدہ تفہیم کے لیے آرٹ کی علمیات سے آگاہی بھی ناگزیر ہے،اس کے ساتھ قاری جدید نظم کی قرآت کے لیے ایک جذباتی دل بھی رکھتا ہو، میرے خیال میں ”جذباتی اور ہم دلی“ جیسے الفاظ جدید نظم کے موضوعی حوالہ سے ”ادب“ سے تعلق کی بنا پر مستعمل ہوٸے ہیں۔ اسی مذکورہ تناظر میں جدید نظم کے حوالہ سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:

”اس بات کا عام طور پر خیال نہیں کیا جاتا کہ جدید ادب کا مطالعہ ایک آرٹ، اور ایک تیکنیک ہے، جدید نظم خود ایک آرٹ ہے، مگر اس کا آرٹ ہونا مشروط ہے قاری کی شرکت سے، اور ایسی شرکت جو بہ یک وقت جذباتی و علمیاتی ہو۔ جدید نظم اس وقت تک نہیں کھلتی، جب تک اس کی علمیات یعنی اس کے فلسفہ آرٹ کا علم نہ ہو اور اس فلسفہ آرٹ اور اسے نظم میں بروٸے کار لانے کے طریقے کے ساتھ ہم دلی (Empathy) کی کیفیت نہ ہو۔“

ہم نے آغاز میں بھی کلاسیکیت اور رومانویت کے تعارف پر لکھا تھا، مختصر وضاحت یہاں بھی پیش کیے دیتے ہیں، کلاسیکیت، تعقل پہ زور دیتی ہے جبکہ رومانویت، جذبات کے گرد گھومتی ہے۔ جب ہم کلاسیکی شاعری کی بات کرتے ہیں تو اس شاعری میں وہ اصول بھی در آتے ہیں جو قدما کے مبحث میں رواج پاٸے ہیں، بہرحال کلاسیکی شاعری کلاسیک اصولوں کے مطابق تخلیق و ترتیب پاتی ہے اور عقل کا پہلو اس میں مرکزی حیثیت لیے ہوتا ہے، اور تبھی ایسی شاعری کو سمجھا بھی عقل کے معیار پر ہی جا سکتا ہے، جبکہ رومانویت، جذبات کی بات کرتی ہے اور تخلیق کی دنیا میں یہ ایک منہ زور آندھی کی مانند ہوتی ہے، کوٸی رکاوٹ نہیں ہوتی، ایک بہاٶ کی کیفیت ہوتی ہے، آمد اپنی رو میں ایک دھارے کی مانند میں بہتی چلی جاتی ہے۔۔۔

جدید نظم، کلاسیکی اصولوں کی پیروی نہیں کرتی، اس کی علمیات معاصر تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، عقل کو جذبات سے نہیں جانا جا سکتا جبکہ جذباتی کیفیات کی روح کو عقل کے ذریعے سمجھنا بھی ایک مشکل امر ہے، جذبات کو جذبات کی دنیا میں ہی سمجھا جا سکتا ہے، اس کے لیے جذباتی کیفیت اپنے اوپر طاری کرنا پڑتی ہے یا اس جذباتی دنیا میں جانا ہوتا ہے۔ جدید نظم کو سمجھنے کے لیے معاصر جذبات کو بروٸے کار لانا ہو گا، ساتھ جدید علمیات کو ذریعہ بنا کر، ڈاکٹر ناصر عباس نیر اس حوالہ سے اپنا استفسار یوں پیش کرتے ہیں:

”سادہ لفظوں میں آپ کو جدید نظم کے مطالعے کے لیے کلاسیکی شعریات اور اس کے اصولوں کو حکم بنانے سے گریز کرنا ہے، اور جدید نظم کی شعریات اور جدید عہد کی علمیات میں جذباتی شرکت کرنا ہے۔“

مزید وہ اس تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ کلاسیکی اصولوں کو مدنظر رکھ کر اگر آپ جدید نظم کا مطالعہ کریں گے تو اس سے آپ پر جدید نظم کی گرہیں وا نہیں ہو سکتیں، یہیں وہ جدید نظم کی شعریات بابت نطشے کے الفاظ درج کرتے ہیں ہم بھی انہی الفاظ کا یہاں اعادہ کیے دیتے ہیں:

”ہاں، یہ ”میں“ مع اپنی مخالفت اور گھبراہٹ کے اپنے وجود کا اظہار بے حد ایمان داری سے کرتا ہے; یہ ”میں“ جو پیدا کرنے والا ہے اور ارادہ رکھنے والا اور قدر و قیمت دینے والا ہے اور جو ہر چیز کا پیمانہ ہے اور قیمت اور یہ بے حد ایمان دار وجود یعنی ”میں“ اس وقت بھی جسم کو یاد کرتا ہے اور اس کا خواہش مند رہتا ہے، جب کہ وہ شاعری کرتا ہے اور بھٹکتا ہے اور شکستہ بازوٶں سے پھڑ پھڑاتا ہے۔“

جدید شاعر، مہابیانیہ کو قطعی طور پر مسترد کرتا نظر آتا ہے، وہ کسی دیوتا پر یقین نہیں رکھتا، وہ تشکیک کی دنیا میں اپنے آپ کو الجھاٸے نہیں رکھتا بلکہ دیوتاٶں کے حوالہ سے اس کے کاٸنات میں تصور کی منسوخی پر یقین رکھتا ہے۔ اس یقین میں آزادی کی بنیاد نظر آتی ہے۔ یہاں میرے خیال میں جدید شاعر اساطیری کاٸنات کو قطعی طور رد نہیں کرتا بلکہ اس سے جڑت، روایت کی ذیل میں رکھ کر اس کو معاصر تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی پوری کاوش کرتا دکھاٸی دیتا ہے۔ جدید شاعر کے ہاں ایک مسلسل نیا پن نظر آتا ہے، نٸی بات نظر آتی ہے، نٸے تصورات نظر آتے ہیں۔ اس کے نزدیک محض روایت کی کوٸی حیثیت نہیں، اس کے ہاں قبولیت کا عمل زیادہ ہے، کونسی قبولیت؟ نٸے تقاضوں کی قبولیت،، اس کے سامنے کٸی شارعیں ہیں ان میں کوٸی بھی مانع نہیں ، مطلب نٸے پن سے عبارت سب راستے جاٸز ہے۔ جدید شاعر عام و خاص کی توثیق چاہتا ہے، وہ اپنی بقا ،متن سے زیادہ اہم نہیں سمجھتا، متن جس کو وہ خود سامنے لایا ہو، اسی ذیل میں نیر صاحب لکھتے ہیں، ”حقیقی جدید شاعر کی شخصی بقا کا سوال، اس کی شاعری کی بقا کے سوال سے بڑا نہیں ہوتا“

جدید شاعروں نے جب مہابیانیے کو جدید شاعری کے لیے رکاوٹ سمجھا تو اس رکاوٹ کی وجہ ان کے سامنے خود مہابیانیے کی پیدا کردہ تھی، رکاوٹ اپنا آپ خلا کی صورت میں سامنے لاٸی، اور یہ خلا یعنی شگاف (خلا جس کے لیے میں شگاف کا لفظ مستعمل کروں گا) جدید شاعر کا مہابیانیے پر تشکیک کا نتیجہ تھا، اس صورت میں جدید شاعری کے مخاطب ایسے پہلو تھے جو عقل کی متقاضی تھے، یا وہ تصورات جو ”حیرت“ کی پیداوار تھے۔ جدید شاعری، انسان کی بات کرتی ہے، اور ایسے انسان سے مخاطب ہوتی ہے جو متشکک ہو، مہابیانیے کو رد کرتا ہو، اور معاصر عقلی دنیا سے ہم آہنگ ہو۔ جدید شاعری ایک ایسی جست کا نام ہے جو قدیم سے جدید تک چند لمحوں میں پہنچی ہو۔ ہم یہاں جدید شاعر ڈاکٹر سجاد نعیم کی نظم ”مجھے اک خدشہ پالنا ہے“ کا مختصر تجزیہ مہابیانیے کی ذیل میں پیش کیے دیتے ہیں کہ کس طرح ایک جدید شاعر مہابیانیے کو جدید شاعری کے لیے رد کرتا ہے۔ پہلے نظم ملاحظہ ہو:

مجھے اک خدشہ پالنا ہے

اپنے پاٶں کی آہٹ کو سنبھال کر کسی طاق میں رکھنا ہے
دیے کی لَو کو مٹھی میں بھینچ لینا ہے
خوابوں کی تعبیریں ہچکولے لے رہی ہیں
سوچیں نقطہ انجماد کی دہلیز پر ٹھٹر رہی ہیں
میری دنیا میرا مقدر بنتی دکھاٸی دے رہی ہے
سبھی منظر سبھی صبحیں بھوت کے استعارے بن گٸے ہیں
پہاڑوں پر اُگی مہیب داڑھیاں میرے گھر تک پھیل گٸی ہیں
جنت کے متلاشی میری دنیا کو دوزخ بنا رہے ہیں
اس بار ساٸبیریا کے پرندوں کے سفر کا ارادہ ملتوی دیکھ کر میرے دیس کی جھیلیں اپنی تنہاٸیوں سے سرگوشیاں کر رہی ہیں
آبشاروں کے بیچ جداٸی کے پھول کھلتے ہیں
ہجر کے لمحوں میں کشید کی گٸی ساعتیں رونا بھول چکی ہیں
بارود سے اَٹی ہوٸی سانسیں، سانس لینے کا فیصلہ مٶخر کر چکیں
میرا وجود اپنی کہانی لکھنے سے ڈر رہا ہے
میری عادتیں بھی میرے بس سے باہر ہو رہی ہیں
میناروں سے گِھرے شہر میں دم گھٹنے کا خدشہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے
میری تنہاٸی نے مجھ سے وقت کی گہری سازش کو ماپنے کا عہد لے لیا ہے
کہ اب کی بار دروازے پر انجان دستک کو نگلنے سے پہلے ہی تھوک دینا ہے

جدید شاعری انسان کے لیے سوال اٹھاتی ہے، اس کے ساتھ جدید شاعری انسان کو محتاط بھی کرتی ہے، ایسی احتیاط جو اس کے لیے مہلک ہو۔ پھر اس کے خوابوں کی تعبیر مستقبل کی بات تو کرتی ہے لیکن ترجیحی بنیادوں پر پہلے حال کا تقاضا کرتی ہے، اور ایسا حال جس کی تراش جدید تقاضوں کے مطابق خود کی جاٸے، پھر وہ ساٸبیریا کے ٹھٹھرتے مقام پر کسی کا آلہ کار اپنے قاٸم مہابیانیے کی صورت کبھی نہیں بنتا یا بننا چاہتا بلکہ اسے اس ماحول سے بھی وحشت ہونے لگتی ہے، تبھی تو اسے سبھی منظر اور سبھی صبحیں ”بھوت کے استعارے“ بنتے نظر آتے ہیں، یخ بستہ جگہوں کے ہولناک مناظر کو ہزاروں کوس دور بیٹھا جدید شاعر بالکل اپنے آس پاس ہی دیکھتے ہوٸے محسوس کر رہا ہے، بلکہ وہ اس سے شدید خوفزدہ ہے، جنت کے متلاشیوں کو وہ رد کرتا ہے یہاں واضح طور پر وہ مہابیانیے کو رد کرتا ہے چونکہ یہ تصور مہابیانیے کی پیداوار ہے۔ وہ جدید سماج کی بات کرتا ہے اور اسے ہی اہم سمجھتا ہے، اُس سماج کی ویرانی اسے ایک نٸے عزم پر اکساتی ہے، وہ سماج اسے اپنے وجود سے ہی مغاٸرت کا شکار کر دیتا ہے، مہابیانیے کے عملی نتاٸج سے پیدا ہوتی ایک مہیب صورت حال کا اسے سامنا ہے، اس تناظر میں یعنی مہابیانیے کی ذیل میں معاصر دنیا میں پیدا ہوتی ایک غیر یقینی صورت حال سے بھی وہ دوچار ہے، یہ مذکورہ صورتیں مہابیانیے کے عملی نتاٸج کی شکل میں جدید شاعر کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں،اور ایسی سب صورتوں سے وہ مستقل چھٹکارا چاہتا ہے تبھی تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ”میری تنہاٸی نے مجھ سے وقت کی گہری سازش کو ماپنے کا عہد لے لیا ہے“ اس عہد میں ایک نیا ہونے کی بات کا عزم پنہاں ہے،اس عہد میں ایک نٸے سماج کی بات نظر آتی ہے۔ گو اس نظم کا تناظر ایک بڑی طاقت کی زبان و فعل کو ظاہر کر رہا ہے لیکن اس بڑی طاقت نے اپنی طاقت کی فعلیت کو جواز و آڑ دینے کے لیے مہابیانیے کو ہی آگے کیا ہے یا اسے ہی استعمال کیا ہے، گو اسے یہاں ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر اس کے بھیانک نتاٸج سے جدید شاعر کس طرح متاثر ہوتا ہے اور اپنے اس حوالہ سے تحفظات کو کس طرح جدید شاعری کا موضوع بناتا ہے یہ سب ایک جدید شاعر کی شاعری سے ہم پر واضح ہو جاتا ہے۔