نظرنہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ

یہ تحریر 185 مرتبہ دیکھی گئی

محمد سلیم الرحمٰن 89 سال کے ہوگئے۔ محمود الحسن صاحب کی پوسٹ اور محمد سلیم الرحمٰن صاحب کے بھانجے کی بھیجی ہوئی تصویر سے اس کا علم ہوا۔ کم و بیش پچاس برس سلیم الرحمن بلراج مین را اور شمیم حنفی کی رفاقت کے ہیں۔ میں نے ان دو بزرگوں کی آنکھوں میں سلیم الرحمٰن کو دیکھا ہے۔ مجھے یہ لکھنے کی ہمت نہیں کہ سلیم الرحمن صاحب کو بلراج مین را اور شمیم حنفی کی نظروں سے دیکھا ہے اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ان نگاہوں سے نکلنے والی کوئی روشنی یا کرن میری نگاہ میں بھی آ گئی ہوگی۔ اعزاز تو انہیں دو بزرگوں کی نگاہوں کا ہے۔ سلیم الرحمٰن صاحب کی شخصیت اور تحریر سے تھوڑی جان پہچان انہیں شخصیات کی وجہ سے ہے۔شاید ہی کوئی ایسی ملاقات ہو جس میں محمد سلیم الرحمٰن صاحب کا ذکر نہ آیا ہو۔ مجھے ان سے ملنے کی بڑی خواہش ہے۔ میں نے یہاں اپنے بہت سے بزرگوں کو کھویا ہے اور جو صورت حال ہے اس کے بارے میں کچھ لکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا ہے۔ دہلی سے لاہور کا فاصلہ کبھی کتنا کم تھا۔ کناٹ پلیس کے ٹی ہاؤس میں بلراج مین را کی گفتگو کے ساتھ لاہور کھینچتا ہوا چلا آتا تھا اور اس میں سب سے نمایاں قد محمد سلیم الرحمٰن کا ہوا کرتا۔ وہ قد آج بھی نمایاں ہے اپنے علم و احساس کی وجہ سے لیکن وقت نے علمی اور ادبی ترجیحات کو بدل دینے کی وجہ سے کچھ لوگوں کے لئے مشکل پیدا کر دی ہے اگر یہ بات صحیح ہے تو وقت نے ہر شخص کی ترجیحات کو کیوں تبدیل نہیں کیا۔ جامعہ کے ذاکر باغ کی ایک منزل پر شمیم حنفی کی گفتگو سلیم الرحمن صاحب کی علمی شخصیت کو روشن کرتی رہی۔ یہ روشنی خود شمیم حنفی کی شخصیت میں موجود تھی۔ اپنی شرطوں پر جینے والے ہمیشہ کم رہے ہیں۔ محمد سلیم الرحمٰن کی شخصیت وقت کے ساتھ کچھ لوگوں کی نگاہ میں پرانی ہوئی ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے یہاں ادب،تاریخ، تہذیب اور دیگر علوم کے نئے مسائل و مباحث باریاب نہ ہوئے ہوں۔
لاہور اور دہلی ایک ہی طرح سے اپنے شہریوں کا حال دریافت کرتے ہیں۔ درجہ حرارت میں بہت معمولی سا فرق رہتا ہے۔ ساٹھ ستر کی دہائی میں دہلی اور لاہور کا ادبی درجہ حرارت بھی ایک جیسا تھا?۔ جو کتابیں دہلی میں پڑھی جاتی تھیں لاہور بھی انہیں کتابوں کو پڑھ رہا ہوتا تھا۔اس میں سلیم الرحمن کی شرکت ایک خاموش صاحب نظر اسکالر کی تھی۔ وہ جس قدر نئے مسائل سے واقف تھے اس کے اظہار میں وہ اتنے ہی حساس تھے۔ وہ تبدیل ہو جانے پر پر اتنا ہی یقین کرتے تھے کہ جتنا کوئی با ضمیر شخص کر سکتا ہے۔وہ جدیدیت، وجودیت، ترقی پسندی اور دیگر نظریات کے سلسلے میں کبھی جذباتی نہیں ہوئے۔ چاہے جتنا بھی وہ تیز تر پڑھتے ہوں لیکن ان کی تحریر یہ بتاتی ہے کہ دھیمے سروں میں سوچنے کا انداز کیا ہوتا ہے۔ ان کے آس پاس کی ادبی دنیا میں لسانی تشکیلات اور وجودیاتی مسائل کا شور بہت تھا۔ وہ سب کے ساتھ رہتے ہوئے سب سے الگ رہے۔ بلراج مین را کی شخصیت میں بھی بلا کا شور تھا۔ یہ شور سلیم الرحمن کی شخصی خاموشی کے شور سے کبھی ٹکرایا بھی ہوگا مگر جب مین را خاموش ہو جاتے تو اس وقت بھی ایک آواز سی آتی رہتی تھی۔ انہیں آوازوں میں سلیم الرحمن کی آواز بھی شامل تھی۔ بلراج مین را سلیم الرحمن صاحب کا جب نام لیتے تو رحمٰن کا الف مقصورہ بہت دور نکلتا دکھائی دیتا اور پھر بلراج مین را ٹیبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے کہ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ میں نے کتنا خوبصورت وقت گزارا ہے۔ شمیم حنفی اور بلراج مین را سلیم الرحمٰن کا نام ان کے معاصرین کے ساتھ لیتے ضرور تھے لیکن یہ نام خود ہی الگ ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ آج اس سوال پر غور کر رہا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہوا تو اس کا جواب علمی ریاضت اور وہ دھج ہے جو اب بڑی حد تک سلیم الرحمٰن کی شخصیت سے مخصوص ہے۔ سلیم الرحمٰن نے فکر و احساس کی سطح پر جو آسودہ زندگی گزاری ہے اس کا راز اسی دھج میں پوشیدہ ہے لیکن یہ کیسی آسودگی ہے جو وقت کے ساتھ مطالعے کی عادت کو بڑھاتی ہی چلی گئی۔ ان کی بڑائی کا اک راز یہ بھی ہے کہ وہ رسالوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہیں۔اپنے دور کی ادبی اور تہذیبی صورت حال کو سمجھنے کے لیے رسالوں سے زیادہ کوئی اور بہتر وسیلہ نہیں ہے۔ اردو ادب میں عابد سہیل کی خود نوشت سوانح ”جو یاد رہا” پر میرا ایک تبصرہ شائع ہوا تھا جس میں کلیم عاجز کی خود نوشت سوانح ”جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ”کا ذکر بھی تھا۔ محمد سلیم الرحمن صاحب نے شمیم حنفی صاحب سے اس کا ذکر کیا اور یہ بھی فرمایا کہ سرور سے بات ہو سکتی ہے؟۔ شمیم حنفی صاحب کا فون آیا کہ سرور تم فوراً سلیم صاحب سے بات کر لو۔ پہلے تو انہوں نے میل سے کچھ بھیجا جس میں اس بات کا دکھ تھا کہ اردو میں ” جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی” جیسی سوانح شائع ہوء مگر ادبی حلقے نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ یہی بات وہ شمیم حنفی صاحب سے بھی لاہور میں کہہ چکے تھے کہ شمیم صاحب کلیم عاجز نے جو نثر لکھی ہے وہ آگ سے بھری ہے جو تخلیقیت کا بھی اعلیٰ نمونہ ہے۔ دہلی آنے کے بعد شمیم حنفی صاحب نے اس واقعے کا ذکر کیا۔ شمیم حنفی صاحب نے جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی کو دیکھا اور دوبارہ دیکھا مجھ سے کہنے لگے کہ سرور احساس اور جذبے کا وفور بہت ہے۔ زبان کیسی تخلیقی اور دھلی ہوئی ہے۔ میں اپنی زندگی کا اک اہم واقعہ سمجھتا ہوں کہ کلیم عاجز کی سوانح جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی کے ذکر نے ان تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا۔
محمد سلیم الرحمٰن صاحب کی جو پہلی تحریر میں نے پڑھی وہ ان کی نظم ”ظالم باشاہوں کے لئے نظم” ہے۔ بلراج مین را نے اپنے رسالے ”شعور” جولائی 1979 میں شائع کیا تھا۔ یہ نظم کبھی یاد ہو گء تھی شاید چند مصرعے اب یاد نہ ہوں لیکن وہ یاد آ جائیں گے۔ بلراج مین را نظم کا عنوان کہتے ہوئے پر جوش ہو جاتے تھے۔ نظم کا دوسرا حصہ دیکھیے
چاقوؤں کی جس شفق میں
تم کسی چقماق کے مانند چٹخے
وہ تمہاری آستینوں اور تمہاری کھیتیوں میں
آگ بن کر لہلہائی
اظہار کی سطح پر چاقوؤں کی شفق کتنی نامانوس ہے اور ایک طرح سے کس قدر سفاک ہے۔ یہاں شفق نے اپنا رنگ تبدیل تو نہیں کیا ہے لیکن چاقوؤں اور چقماق کے ساتھ خود کو کچھ تبدیل ضرور کیا ہے۔ آستینوں اور کھیتیوں میں جو شے آگ بن کر لہلہائی ہے وہ کسی ایک دور کا قصہ نہیں ہے۔ نظم کا مزاج ابہام سے قریب ضرور ہے مگر یہاں یہ ابہام ظلم کی کھیتی پر دبیز پردہ ڈالنے لگتا ہے۔ اچانک ایک لہر آتی ہے اور دبازت کو بے دخل کر کے ایک نئی قسم کی دبازت کی تشکیل کر دیتی ہے۔
یہ بند بھی دیکھیے
آئے دن تم کو سلامی دینے والی
خارشی شہ سرخیوں میں نشتروں کی نیک نامی
سائرن اور سیٹیاں
درسی کتب کے ہر صفحے پر
یہ کس ظالم بادشاہ کی کہانی ہے یہ کون بتائے گا ذرا دیکھیے کہ جن خارشی شہ سرخیوں کا ذکر ہے اس کی عمر کتنی طویل ہے۔ یہ ترکیب اور کسی نے استعمال نہیں کی ہے۔ درسی کتاب کے صفحے بھی بہت کچھ کہتے ہیں اور آج کی صورت حال میں یہ بات زیادہ اہم ہو گیی ہے اسی شمارے میں سلیم الرحمٰن کا ایک افسانہ سائیبریا شائع ہوا۔اس کا ایک اقتباس دیکھیے
یہ سوچ کر کہ اسے چھٹی کے بعد اس جیسی بہت سی سڑکوں سے گزرنا ہوگا اس کا دل بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی پتلون کی طرف دیکھا جس پر پائنچوں سے گھٹنوں تک پہلے ہی بہتیرے چھوٹے بڑے چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔ اسے ایک کہانی یاد آ گئی جس میں ایک آدمی پہلے ٹخنوں تک،پھر گھٹنوں تک، پھر کمر اور گردن تک پتھر ہو جاتا تھا۔ اس نے خودکو کہانی میں اس آدمی کی جگہ کھڑے کرکے دیکھنا چاہا مگر کچھ محسوس نہ کر سکا۔
اس اقتباس کو پڑھ کر ہر شخص کو اپنی کوئی کہانی تویاد نہیں آئے گی۔اس کی وجہ آدمی کااپنے ہی جسم کے مختلف حصوں میں پتھر بن جاناہے۔یہ کہانی البتہ جس پتھریلی زمین میں پیداہوسکتی ہے اس کے لیے سائیبریاکاہوناضروری ہے۔سلیم الرحمن کی یہ کہانی انہی دنوں کی ہے جب کہانی کی تنقید طرح طرح کے الجھاوؤں میں گرفتار تھی۔اسے کیسے کیسے نام دیے گئے لیکن کہانی کہانی ہی رہی۔بلراج مین رانے سائیبریاکو شعور میں شائع کر کے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ دین محمد سے المونیم کاگلاس جس پانی کو چھلکاکر میز پر گرادیتاہے وہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھالیکن اس بات کااعلان ضرور تھا کہ میز پر پانی کاچھلک کر گرجاناکتنافطری عمل ہے اور پھر عثمان سے کہاجاتاہے کہ پانی پی لو۔اس درمیان پھر شمس الدین کو سردی کاخیال آتاہے۔برف اور برفانی عہد کارشتہ فطرت سے ہے اور سائنس یہ بتاتی ہے کہ یہ موسم کب سے اور کہاں سے شروع ہوگااور یہ بھی کہ دنیاکاموسم وقفے وقفے سے کیوں کر تبدیل ہو جایاکرتاہے۔اس کہانی میں نہ کوئی شور ہے اور نہ ہی کسی بات کو غیر ضروری طور پر حیران کن بنانے کی کوشش۔زندگی زمین سے لگ کر چلتی ہے اور اس زندگی کو زبان دینے والی زبان بھی زمین سے لگ کر چلنے لگتی ہے۔لوگ اس خبر سے خوش ہوں گے کہ سلیم الرحمٰن صاحب کی کہانیاں یکجاہوگئی ہیں اور وہ عنقریب شائع ہوں گی۔اس کی اشاعت اس لیے ضروری ہے کہ اس عہد کے افسانے کی دھوم دھام نے سلیم الرحمن کے افسانوی اسلوب کی شناخت ہو سکے۔اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی کہ کہانی 60.70کی دہائی میں فطرت کو کس طرح انگیزکر رہی تھی۔
سلیم الرحمٰن کے اہم کاموں میں ایک اہم کام رباعیات سرمد کامنثور ترجمہ ہے۔ان کی اجازت سے میں نے اسے دیو ناگری میں منتقل کیاہے۔اس سے بھی اندازہ کیجئے کہ ان کی نظر داراشکوہ سے ہوتی ہوئی سرمد پر کیوں کر ٹھہر جاتی ہے۔سلیم الرحمن صاحب نے رسالہ معیار کے لیے پاکستانی نظموں کاانتخاب کیاتھا۔یہ رسالہ بلراج مین اور شاہد ماہلی نے مشترکہ طور پر مرتب کیاتھا۔تعارف میں وہ لکھتے ہیں کہ
”خودکلامی کی نئی نظموں کاجزو اعظم ہے۔چاہے اس کی لے تیز ہو یادھیمی۔یہ خودکلامی محض اپنے آپ میں الجھ کر رہ جانے کی علامت نہیں ہے۔یہ ایسے عہد کالازمی پیرایہ ہے جس میں شور بڑھتاجارہاہے۔جس کی فضاان گنت آوازوں اور تصویروں کے تموج اور اھتزازسے آلودہ ہو چکی ہے۔نئے شاعر کے اضطراب،تجسس اور تجربہ پسندی کی تہہ میں خوب سے خوب تر کی جستجو کارفرمانہیں بلکہ وہ اپنے اندر کسی کنج اثبات کی تنہائی کے گرد شعر کاحصار کھینچناچاہتاہے۔تاکہ اس کی ذات کاکوئی حصہ توآسمانوں اور زمینوں کی ناختم ہونے والی پاکیزگی کاامین رہ سکے۔“
محمد سلیم الرحمٰن کے تراجم گمشدہ چیزوں کے درمیان کے ساتھ جو وقت میراگزراہے اس کے تاثرات کسی اور موقع پر پیش کیے جائیں گے۔اس وقت تو اقبال کاایک شعر ان کی نذر کرنے کوجی چاہتاہے۔
نظرنہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل