ناول کے بارے میں چند اور باتیں

یہ تحریر 235 مرتبہ دیکھی گئی

ناول اب کہیں کہیں سے پڑھاجاتاہے اور اس کاکوئی حصہ موضوع گفتگو بن جاتا ہے۔ناول کاتصور اگر مختلف ٹکڑوں اور حصوں میں کیا جائے تو اس سے ناول کی عظمت میں کیا اضافہ ہوگا؟۔بعض ناولوں کوپڑھ کر گمان ہوتاہے کہ اس کے کچھ حصے ناول نگار نے کہیں سے مستعار لے کر اپنا بنانے کی کوشش کی ہے۔کوئی حصہ یاٹکڑامستعارہے یاناول نگار کے ذہن کی اپج ہے اس کافیصلہ آسانی سے نہیں ہوسکتا۔پھر بھی زبان یہ کہے دیتی ہے کہ اس میں کتناکچھ باہر کاہے اور کتنااندر کا۔ناول میں یوں دیکھیں تو باہر کاکچھ زیادہ ہی ہوتا ہے اور جو لوگ اسے داخل کامسئلہ بنادیتے ہیں یہ ان کافن ہے۔ناول کی قرأت دوسری اصناف کی قرأت سے مختلف ہے یااسے مختلف ہوناہی چاہیے لیکن ادب کی قرأت کاکوئی ایسا بھی اندازہے جو مختلف اصناف کی قرأت کے درمیان حائل ہو جاتاہے۔اب یہی دیکھیے کہ ناول کو وحدت کے طورپر دیکھنے کاتصور تو ایک پراناتصور ہی کہاجائے گا۔ وحدت کامفہوم فن پارے کے ساتھ مختلف ہو جاتاہے۔یکجادیکھنے اور یکجا کرنے کی خواہش کوئی حوصلہ افزاخواہش تو نہیں ہو سکتی۔شہر یار نے کہاتھا۔
جمع کرتے رہے جو اپنے کوذرہ ذرہ
وہ یہ کیاجانیں بکھرنے میں سکوں کتناہے
اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ خود کو جمع کرنا کوئی آسان کام ہے اور بکھرنا ہی سکون کاواحد وسیلہ ہے۔شعر کی یہ نثر شعر کی داخلی دنیا کاساتھ نہیں دیتی۔ہم زندگی اور ادب میں خود کو جمع کر تے ہوئے بھی بکھرتاہوامحسوس کرتے ہیں اور بکھرنااکثر اوقات کسی یکجائی کے نامانوس تصور کوذہن میں ابھارتاہے۔ناول کی ہیئت کو بکھیر دینایااس کامجموعی طور پر بکھر جانااس کی طاقت ہے نہ کہ کمزوری۔مگر ناول جب بکھرتاہے تو اس کے داخل میں کوئی کشاکش اور آویزش ہوتی ہے اوراندر اندر فکر واحساس کی لہریں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں۔
وقت،کردار،زمانہ،اشیا،اشخاص یہ سب آگے پیچھے اوپر تلے ہو کر وحدت کے تصور کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔اس کے نتیجے میں ناول کاجو متن ہمیں ملتاہے وہ کوئی اور متن ہے۔ اسے ناول کے اس متن سے ملا کر نہیں دیکھا جاسکتا جس میں بکھرنے اور بکھیرنے کی ایک فوری سیاست ہے۔ناول کی سیاست او ر ناول کی قرأت کی سیاست ایک دوسرے سے ٹکراتی ہے لیکن اب ایسا بھی کہاں ہوتاہے۔ایماندارانہ طور پر اگر دیکھا جائے تو ناول کی دنیا کتنی سمٹتی جارہی ہے۔خیال پر زوال آیاہے یاخیال بندی پر یہ کون بتائے گا۔شاید یہ کہا جائے کہ زوال نہ خیال پر آیاہے اور نہ خیال بندی پر بلکہ زوال تو خیالی شخص پر آیاہے۔کوئی لکھنے والا اگر مستقل طور پر یافوری طور پر خیالی بن جائے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ناول نگار کازندگی کے کسی ایک مسئلے کے بارے میں بار بار سوچنااور ایک ہی طرح سے سوچنا،ناول کے فن سے دور ہو جاناہے۔مگر ناول کے اسالیب یہ بتاتے ہیں کہ ناول میں ہر طرح سے سوچنے اور ہر طرح سے لکھنے کی آزادی ہے۔ہر طرح سوچنا اور ہر طرح سے لکھنایہی تو ناول کافن ہے لیکن جب زندگی کاایک رخ تمام رخوں حاصل بن جائے اور بار بار یہ کہا جائے کہ میں نے اسی رخ کو زندگی کاحاصل سمجھاہے اور آپ بھی سمجھئے تو یہ بھی ایک طرح کاغیر جمہوری رویہ ہے۔تمام اصناف میں ناول سب سے زیادہ جمہوری صنف ہے۔اس لیے دنیا بھر میں ناول کے آغاز وارتقا کو تاریخی پس منظر میں دیکھاگیابلکہ اپنی تہذیبی زندگی کے سیاق میں کہاگیاکہ ناول کوتاریخ نے پیداکیاہے۔جہاں تہذیبی سطح پر کشاکش اور کھینچاتانی ہے اسے بھی تاریخ کازائیدہ سمجھنا چاہیے۔”ناول اور جمہوریت“ ایک ایسا عنوان ہے جو اردو ناول کی تنقید کااس طرح مسئلہ نہیں بنا جیساکہ بنناچاہیے تھا۔جمہوریت کو وجودیت کے خلاف سمجھاگیا۔یہی وجہ ہے کہ ناول میں چھوٹے چھوٹے گھروندے بنائے جانے لگے۔یہ گھروندے بچوں کے کھیل کی طرح تھے۔ہم انہیں زبان و اظہار کی کچھ پُھل جھڑیاں بھی کہہ سکتے ہیں جو آنکھوں کو اچھی لگتی ہیں لیکن ان میں کوئی زندگی نہیں ہوتی۔تو ناول صرف اسلوب کی طاقت سے ہمیں رجھانہیں سکتا اور وہ بھی اس اسلوب سے جو کسی طبیعت کی افتاد کاقیدی بن گیاہے۔قاری اس انتظار میں ہے کہ اسے کوئی قیدی توبنائے۔یہ وہ قاری ہے جو عقیدت کی بنا پر ناول کو پڑھنا نہیں چاہتااور نہ وہ ایک قاری کے طور پر خود کو خراب کر سکتاہے۔سارتر نے جس BAD FAITH کی بات کی تھی اس کی عملی صورت کسی اور طرح سے اب دکھائی دیتے لگی ہے۔ہم کسی دھوکے میں ہوتے ہیں۔اپنی فکری آزادی کسی اور کے حوالے کر دیتے ہیں۔ہماری پسند اور ناپسند کافیصلہ کوئی اور کرتاہے جذباتیت انسان کی کمزوری نہیں مگر جب جذباتیت دھیرے دھیرے حقائق کاپردہ بن جائے تو ڈرناچاہیے۔ اردو کے جن ناولوں نے ہمیں قید کر رکھا ہے وہ باربار چھپتے ہیں اور ان کی حیثیت کلاسیک کی ہوگئی ہے۔ان ناولوں کے لکھنے والے بھی رخصت ہو گئے اور ان کے ہم عصر چاہنے والے بھی رفتہ رفتہ اسی کارواں کاحصہ بنتے جارہے ہیں۔یہ ناول کی وہ طاقت ہے جس کامقابلہ موجودہ پبلی سیٹی کانظام نہیں کرسکتا۔ان ناولوں کو کوئی ایسا وسیلہ بھی میسر نہیں آیاکہ صبح سے شام تک کوئی انہیں دوسروں تک پہنچاتارہے اور طرح طرح سے ان کاگن گان کرتارہے۔ایک خاموش متن تھاجو تاریخ کازائیدہ تھااور ناول نگاروں کی طبیعت میں بھی بلاکی خاموشی تھی اور دل میں اطمینان کی وہ کیفیت تھی جو اب ہمارے عہد کامقدر نہیں رہی۔اب تو بے اطمینانی ہی بے اطمینانی ہے۔لکھنے سے پہلے بھی،لکھنے کے درمیان بھی اور لکھنے کے بعد بھی۔بے اطمینانی کبھی زندگی کی ایک قدر سمجھی جاتی تھی۔اب یہ سیاست بن گئی ہے۔ان ناول نگاروں کومعلوم تھا کہ ان کاقاری انہیں دیر سے میسر آئے گا۔ناول قارئین تک دیر سے پہنچے گا۔تاخیرکایہ حسن اور تاخیر کی یہ طاقت ہم میں سے بہت لوگوں نے دیکھ لی ہے۔عجیب بات ہے کہ متن کو بنانے شائع کرنے میں تاخیر کے باوجود وقت کا ایک بہاؤ متن کے اندر موجود تھاجو تاخیر سے کوئی علاقہ نہیں رکھتاتھا۔وہ جو منیر نیازی نے کہا ہے۔’ہمیشہ دیر کردیتاہوں میں‘وہ زندگی کاحسن ہی تو ہے۔کل سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک نوجوان کو یہ پڑھتے ہوئے سناتومیں نے اپنی طرف سے بھی آواز ملادی۔نوجوان تیزی سے سیڑھیاں اتر رہاتھااور دیر کاکوئی تصور کم سے کم اس عمر میں کیا ہو سکتاہے۔توتاخیر نے کل اس طرح وقت کا مفہوم سمجھایا۔کہانی اور شاعری کس طرح ساتھ ساتھ چلتی ہے اور وہ زندگی کے عام تماشوں کے درمیان پھیلی ہوئی ہوتی ہے اس کے لیے بس ایک ذہن اور نگاہ چاہیے۔یہ ذہن زمینی بھی ہو سکتاہے او ر آسمانی بھی۔یہ نگاہ نزدیک کی بھی ہو سکتی ہے اور دور کی بھی۔جن ناولوں کو آج ہم کلاسیکی کہتے ہیں وہ کتنی دیرسے قارئین تک پہنچتے تھے اور کتنی تاخیر سے ان کے بارے میں خیالات ظاہر کیے جاتے تھے۔لیکن زمانہ ان ناولوں کازنجیری بنتاجاتاتھا۔
ناول کاآغاز،ناول کاوسط اور ناول کااختتام یہ وہ باتیں ہیں جن کاذکر اب نہیں ہوتا۔ان باتوں کو سن کر لو گ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھیے کتنی روایتی باتیں ہیں۔ کبھی آغاز وسط بن جاتاہے اور کبھی اختتام آغاز کا تاثر پیش کرتاہے۔سوال یہ ہے کہ ناول کی روایتی ہییت کی توڑ پھوڑ سے ہمیں کیا ملاہے۔قاری ناول کو پڑھتے ہوئے اگر کچھ روایتی ساہو جاتاہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتاہے کہ وہ نئے کی پہچان سے قاصر ہے۔نئے کی پہچان جب فیشن بن جائے اور پرانے کو اس بنیاد پر رد کیاجائے کہ زمانہ بہت آگے بڑھ گیاہے تو ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑی سچائی ہے پھر بھی پراناذہن نئے ذہن کو شاید بہتر طورپر پہچان سکتاہے۔جس طرح ناول کو درمیان سے پڑھ کر ناول کی تعریف کی جاتی ہے اسی طرح سے اگر کوئی ایک دم سے نئے ذہن کاخود کو حامل بتانے لگے تو اسے کیا کہاجائے۔
میلان کنڈیرا نے ناول کے بارے میں جن خیالات کااظہار کیاتھاان کاذکر بہت ہواہے۔کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ میلان کنڈیرانے ناول کے بارے میں مصنف کی ذات اور اس کی سوانح کا حوالہ کیوں دیا۔کنڈیرا کی باتیں اس لیے بھی اچھی اور بڑی لگتی ہیں کہ وہ کنڈیرا کی ہیں لیکن کنڈیرا کی ہر بات ناول کے ہر قاری کے لیے پتھر کی لکیر تو نہیں ہے۔ گذشتہ چند دہائیوں میں ناول جوزندگی اور ذات کے اندھیرے کاحوالہ بناہے تواس کی وجہ کنڈیرا کے خیالات کو سب کچھ سمجھ لینا بھی ہے۔یہ اور بات ہے کہ کنڈیرا ناول نگار کی زندگی اور سوانح کو اہمیت دینے کے باوجود وہ اس کے دائرے کو پھیلانے کایااسے پھیلاہوادیکھنے کا متمنی بھی ہے۔بات پھر یہی آکر رک جاتی ہے کہ لکھنے والاکون ہے۔کنڈیرا خنداں اور فراموشی کی کتاب میں کفن دفن کے درمیان قبر میں ہیٹ کے گر جانے کاذکر کرتاہے اور پھر مزاح کاپہلو پیداہوجاتا ہے۔ کنڈیراکاناول اور کنڈیراکی ناول تنقید دونوں ایک دوسرے سے مکمل طورپر گریزاں نہ سہی مگر الگ الگ پڑھے جانے کاتقاضا کرتے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ بڑے ناموں کے حوالے سے چند خیالات ناول کی تنقید میں باریاب ہو گئے اور وہ کثرت سے دہرائے جانے لگے۔ان خیالات کاتعلق بنیادی طور پر فن سے ہے۔مگر زندگی جو سب سے بڑی سچائی ہے وہ جغرافیائی حدوں سے ماوراہونے کے باوجود وہ اپنی زمینی سچائیوں سے گہرے طورپر وابستہ بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ ناول کو ہم کہیں کہیں سے پڑھنا چاہتے ہیں یاناول خود ہم سے ادھر ادھر سے پڑھے جانے کامتقاضی ہے۔قاری بھی تو ایک طرح کانہیں ہے لہذا یہ سوال تمام پڑھنے والوں کے لیے شاید اہم نہ ہو۔ صورت حال یہ ہے کہ ناول کا کوئی خاص حصہ اچھا لگتاہے اور وہ اسی مقام پر اپنی موت مر جاتاہے۔اب جو پہلی قرأت کے بعد قاری کسی اور دنیا میں آکر زندگی کو دیکھتاہے تو وہ حصہ یاد آنے کے باوجود بڑاہی مفلس اور مردم گزیدہ معلوم ہوتاہے۔ناول کی دوسری قرأت کرتے ہوئے نگاہ اگر کسی اور حصے پر مرکوز ہو جائے تو ناول میں دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔کسی ایک ناول نگار کے یہاں ایک ہی کہانی مختلف حوالوں سے اگر مل جائے تو قاری یہ سمجھتاہے کہ یہ تو اس سے پہلے بھی پڑھاجاچکاہے اور اب کسی اور طرح سے یہاں پیش کیاجارہاہے۔ کسی اور طرح سے پیش کرنابھی ایک فن ہے لیکن یہ فن خاص اسلوب کا زندانی بن کر رہ جاتا ہے۔ناول اگر ہمیں کسی خاص اسلوب اور کسی خاص فکر کازندانی بنالے تو نقصان ناول سے کہیں زیادہ قاری کاہوتاہے۔کوئی ناول نگار اپنی سمٹی ہوئی دنیاسے فوری طورپر ناول کو نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن ناول کی فطرت میں وسعت اور پھیلاؤ ہے۔

04/05/2023