ناصر زیدی:ہم دم و دم سازِ دیرینہ/———۔

یہ تحریر 1223 مرتبہ دیکھی گئی

ناصر زیدی سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے :

کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستان پَر

مجھے یاد نہیں کہ پہلے پہل ہم کہاں ملے تھے، شاید پاک ٹی ہاؤس میں، شاید ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب کے کمرے میں(اورینٹل کالج میں) یا دہلی مسلم ہوٹل انار کلی میں، یا شاید انار کلی چوک کے بُک سٹال پر۔ بہرحال جہاں بھی ملے تھے، تعارف یہی ہوا تھا کہ موصوف استادِ محترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے کلاس فیلو ہیں اور عطاء الحق قاسمی کے بچپن کے ہم جماعت دوست اور ہم سایہ ہیں۔ دونوں اُن دِنوں ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے اور ایک محقق راوی ڈاکٹر گوہر نوشاہی کے مطابق ناصرِ زیدی اپنی محبوبہ کو باہر بُلانے کے لئے روزانہ بجلی کا کھمبا اینٹ کے ساتھ کھڑکاتے تھے،مگر دوسرے راوی عطاء الحق قاسمی کا بیان ہے محبوبہ بڑی کٹھورتھی ، وہ سردیوں کی راتوں میں کانوں میں روئی ٹھونس کر لحاف لپیٹ کر میٹھی نیند کے مزے لیتی ہوئی خوابوں کی بستی میں چلی جاتی تھی اور ناصرِ زیدی:۔۔۔ پٹڑی چمک رہی تھی گاڑی نکل گئی تھی کے مصداق وہیں کھڑے رہتے تھے-ناصرِ زیدی پیدائشی نوجوان ہیں یا پیدائشی سفید اور لمبے بالوں والے بزرگ! ابھی تک طے نہیں ہو پایا کہ کسی نے نہ کبھی ان پر نوجوانی اُترتے دیکھی نہ بڑھاپا، شاید عطاء الحق قاسمی اور ڈاکٹر کنول فیروز صاحب کو کچھ علم ہو، مگر آخری اطلاع آنے تک انہوں نے بھی کسی طرح کا بیان نہیں دیا۔ ہاں البتہ ناصرِ زیدی سے کبھی کسی نے اُن کے اپنے بارے میں حال احوال پوچھا بھی تو بس وہ میر کا یہ قطعہ گنگناتے نظر آئے:

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنوہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلی کہ ایک شہر تھا عالم میں بے مثال

ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے

یہاں ’’پورب‘‘ کی جگہ ’’لاہور‘‘ لگا لیجئے اور ’’دلی‘‘ کی جگہ ’’عشق آباد‘‘۔! وزن رہے نہ رہے مفہوم تو واضح ہو جائے گا نا۔۔۔! گیسو دراز، نک سک سے دُرست،وجیہ و شکیل، آنکھوں میں بَلا کی مستی،چہرے مُہرے اور سراپے سے نجیب الطرفین سید،گفتگو سے عالم بے بدل، علومِ عروض و بحور پر صاحبِ ’’ بحرالفصاحت‘‘ کا پَر تو لیکن کسرِ نفسی ایسی کہ چھوٹے سے چھوٹے شخص کو بھی یہ باور نہیں ہوتے دیتے کہ وہ اتنے بڑے شاعر اور عالم ہیں-آزادہ روش درویش اور سراپا خلوص-

کہ آزادہ رَو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کُل

اور نوکری میں آزادہ روَی کہاں؟ اسی لئے تمام زندگی نوکری نہیں کی-

’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت انتہائی کم عمری میں کی۔ پندرہ برس ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت کے بعد مختلف وزرائے اعظم کے اسپیچ رائٹر رہے۔ سب جگہ عزت آبرو سے وقت گزارا اور پھر اپنے سیلانی مزاج کے ہاتھوں مجبور ہو کر نوکری چھوڑ چھاڑ کرگھر بیٹھ رہے کہ اُن کا عقیدہ ہے :

نوکری چھوڑی تو اتری ہوئی پاپوش ہے پھر

میرے خیال میں ان کا مستقل پیشہ عشق پر عاشقی  ہی ہے۔ اِس میدان میں ہمیشہ ثابت قدم رہے لیکن نظریہ ہمیشہ ناصر کاظمی ہی کا رکھا۔

بس ایک منزل ہے بو الہوس کی،  ہزار رستے ہیں  اہل دل کے / یہی تو ہے فرق اُس میں مجھ میں اس میں،  ٹھہر گیا وہ،  گزر گیا مَیں

ناصرِ زیدی خاصے وسیع المشرب ہیں اُن کا حلقۂ احباب بھی بہت وسیع ہے، کبھی کسی کو دُکھ نہیں دیتے۔ اگرچہ دوستوں سے ہزار چرکے لگے ہیں، یاروں کے یار ہیں، ایک دفعہ دوست کہہ دیا تو کہہ دیا:

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو

آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

مگر یہ نظریہ صرف احباب کے لئے ہے، محبوباؤں، کے لئے نہیں ہے۔ 

میرے لئے ناصرِ زیدی کی شخصیت ایک شجر سایہ دار کی سی ہے، میری ہر خوشی و غمی میں مجھ سے بڑھ چڑھ کر شامل ہوتے ہیں۔ مجھے اپنی کتاب’’اُردو میں قومی شاعری‘‘ پر پاکستان رائٹرز گلڈ کے تحت1978ء کا ’’داؤد ادبی ایوارڈ‘‘ ملا تو اُن کی خوشی دیدنی تھی۔اس کتاب پر پہلا تبصرہ ناصرِ زیدی ہی  نے اسلام آباد ریڈیو سے کیا تھا، یہ وہ دور تھا جب مَیں ادبی دُنیا میں نو وارد تھا،ناصرِ زیدی نے مجھے غیر معروف سے معروف بنایا۔ ادبی حلقوں میں متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ہر اہم ادبی محفل میں ساتھ رکھا۔جوش ملیح آبادی سے لے کر حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض ، احسان دانش،احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی، منیر نیازی، مصطفےٰ زیدی اور جدید شعراء میں احمد فراز تک کون ہے، جس سے ناصرِ زیدی کے ذاتی تعلقات نہ ہوں۔ میرا خیال ہے چالیس پچاس سال پہلے پیدا ہوئے ہوتے تو مرزا غالب  کے حلقۂ اثر میں شامل ہوتے۔ اب  اپنے آپ کو آج کل کچھ محدود کر لیا ہے۔ بس اخبار ’’پاکستان‘‘ ، ریڈیو پاکستان، ’’الحمرا‘‘ اور شاداب کے گلستانوں تک اُڑان ہے۔ شاداب میں ہر ماہ ’’ہمدم دیرینہ‘‘ کنول فیروز کے نام ایک مکتوب شائع کراتے ہیں جس میں نو واردانِ ادب و شعر پر خوب خوب لاٹھی چارج کرتے ہیں، ایک غزل بھی ہر ماہ شائع ہوتی ہے۔ ہاسپٹیلٹی اِن میں دوستوں کو چائے پلاتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔میرے نزدیک ناصرِ زیدی کی شخصیت موجودہ دورِ خرابی و خود غرضی میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔ خدا کرے اس مینار کی روشنی ہمیشہ رنگ بکھیرتی رہے، آمین۔تم سلامت رہو ہزار برس/ ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔

نوٹ: یہ مضمون ناصر زیدی کی زندگی میں لکھا گیا تھا۔