“میر کی قوت حاسہ مخصوص یا محدود قسم کی تھی یا یوں کہیے کی میر کی دنیا تنگ تھی”۔

یہ تحریر 170 مرتبہ دیکھی گئی

“میر کی قوت حاسہ مخصوص یا محدود قسم کی تھی یا یوں کہیے کی میر کی دنیا تنگ تھی”۔
(کلیم الدین احمد)
“اردو شاعری پر ایک نظر “کی پہلی جلد میں میر، سودا اور درد کا ایک ساتھ محاکمہ کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب کلم الدین احمد کو اس کا خیال آیا کہ 18ویں صدی کی اردو غزل کو ان تین شاعروں کے حوالے سے دیکھنا چاہیے۔ عبدالسلام ندوی کی کتاب “شعر الہند” میں میر و مرزا کے نام سے ایک باب ہے جس میں عبدالسلام ندوی نے تقابل کا انداز اختیار کیاہے لیکن اس کی حیثیت تنقید سے زیادہ تذکرے کی ہے۔ کلیم الدین احمد نے مضمون کی ابتدا میں یہ راز بھی فاش کر دیا ہے کہ ان شاعروں سے عام طور پر لوگ واقف ہیں لہذا انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ مجموعی طور پر اردو غزل کے بارے میں اپنی رائے پیش کر سکیں ۔گویا ایک معنی میں یہ بہانہ تھا اردو غزل کی تنگ دامنی کو ظاہر کرنے کا۔ کلیم الدین احمد نے ان کلاسکی شاعروں کے بارے میں تقریباً وہی انداز اختیار کیا ہے جو تنقید کے سلسلے میں حالی اور شبلی کے لیے اختیار کیا۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تناظر کے نہ ہونے کی وجہ سے اردو کے شعرا و ادبا نے وہ معیار قائم نہیں کیا جس کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے ان شاعروں کی مجبوریوں کو بھی پیش نظر رکھا ہے ماحول اور روایت ان کی نگاہ میں مجبوریوں کے دو اہم حوالے ہیں۔ مغزبی ادب سے ناواقفیت نے فکری تناظر کو پھیلنے کا موقع نہیں دیا ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ان شاعروں کے پیش نظر انگریزی کی اعلی نظمیں ہوتیں اور وہ نظم کے مفہوم کو سمجھتے تو بہتر شاعر ہوتے۔ دنیائے ادب میں ان کا ایک مقام ہوتا کلیم الدین کی نظر میں روایت نے میر ، سودا اور درد کو فکری طور پر محدود کر دیا ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ فارسی شاعری کے اثر نے اردو غزل کو فکری اعتبار سے پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا ۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ قیمتی جواہرات تو نہیں البتہ جواہرات کے ٹکڑے ہیں لیکن کلیم الدین احمد کا درد اس جملے کے ساتھ چھلک جاتا ہے۔
“ہاں ان ٹکڑوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اصلی جواہرات کتنے بیش بہا ہوں گے”
اتنی سخت تنقید اور گرفت کے باوجود کلیم الدین کی تنقیدی نظر میر سودا اور درد کی شاعری کے محاسن کو دیکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جو کلیم الدین کی تنقید کو معروضی بناتا ہے کلیم الدین کی مغربیت پر گفتگو تو کی جاتی ہے لیکن اکثرگفتگو یک طرفہ ہو جاتی ہے اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ مغربی تناظر پر زور دینے کے باوجود وہ فن پارے کی داخلی اور خارجی ساخت سے گہرا رشتہ قائم کرتے ہیں اس طویل مضمون میں کئی ایسے موقع ائے جو یہ بتاتے ہیں کہ انہیں میر سودا اور درد کی شاعری کی قوت کا شدید احساس ہے۔ وہ غیر ضروری طور پر نہ کوئی اصطلاح وضع کرتے ہیں اور نہ وہ معنی کی کشید کے سلسلے میں کوئی غیر ضروری کوشش کرتےہیں۔ انہوں نے جن شعروں کی روشنی میں میر کی شاعری اور شخصیت کا محاکمہ کیا ہے وہ میر کے مقبول اشعار ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کلیات میر میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جن سے کلیم الدین احمد کے تنقیدی مقدمات کی نفی ہوتی ہے۔ کلیم الدین احمد کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ میر کی دنیا بہت تنگ ہے وہ جسے میر کی تنگ دنیا کہتے ہیں اس کو نزدیک سے دیکھنا ضروری ہے ورنہ تو کلیم الدین کو بھی اس کا احساس ہے کہ میر کے یہاں مختلف قسم کے مضامین ہیں اور اسالیب کی سطح پر بھی ان کے یہاں وسعت ہے لیکن کلاسکی شاعری جن چند مضامین کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے وہ ایک معنی میں موضوعات کی سطح پر تنگی کا احساس دلاتی ھے۔ ۔ یہ اور بات ہے کہ موضوعات کی یہ تنگی ایک طرح سے اس وسعت کا اشاریہ بھی ہے کہ ان کی پیشکش میں شعراء نے اپنی فکری پرواز کا ثبوت فراہم کیا ہے۔کلیم الدین احمد میر سودا اور درد کے سلسلے میں فکری پرواز کو اس معنی میں رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں
“میر کی قوت حاس مخصوص و محدود قسم کی تھی یا یوں کہیے کہ میر کی دنیا تنگ تھی میر وہی داخلی و خارجی اثرات قبول کرتے تھے جو ایک خاص رنگ کے یعنی درد و غم کا نمونہ ہوتے تھے ان کی فطرت اس خصوصیت کو ماحول کے اثر ان کی افتاد زندگی نے اور بھی محکم کر دیا تھا مسرور و متبسم اثرات میر کو پسند نہ تھے ان کی پژمردہ دلی شگفتہ جذبہ یا شاد کام خیال کی طرف مائل نہ ہوتی تھی۔ان کی تنگ حالی وسعت تخیل سے گریز کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میر کے جذبات و تصورات میں تنوع نہیں بس ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں صرف یہی نہیں میر کے ذہن و ادراک بھی محدود قسم کے تھے ان کے خیالات عمیق و بلند نہیں سطحی اور معمولی ہیں کسی جگہ بھی وہ اعلی دماغی طاقت کا ثبوت نہیں دیتے غور و فکر ان کی عادت تھی لیکن اس غور و فکر کا پراثر نتیجہ نہیں ملتا دماغی طاقت کی طرح ان کے تخیل میں بھی وہ زور نہیں وہ شوکت وہ حشمت نہیں جو بعض دوسرے شاعروں کے تخیل کی نمایاں خصوصیت ہے یہ سب سے ہی لیکن اپنے حدود کے اندر میر لاجواب ہیں چند چیزیں ہیں جو صرف انہی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں اور اس لحاظ سے وہ یگانہ و یکتا ہیں میں نے کہا ہے کہ ان کے احساسات کی دنیا محدود و تنگ تھی لیکن وہ جو بھی محسوس کرتے تھے تو شدت کے ساتھ خود بے متاثر ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی متاثر کرتے تھے ان کے خیالات معمولی سہی لیکن ان میں ایک جوش و خروش ہے اس لیے کہ وہ جوش کے ساتھ محسوس کیے گئے ہیں گرمی جذبات نے گویا ان کی صورت ہی بدل دی ہے اسی طرح میر کے تخیل کی طاقت پرواز کم اور کمزور سے ہی لیکن جہاں تک ان کی پرواز ہے جن چیزوں تک اس کی رسائی ہے ان سبھوں کا نقشہ نہایت صاف اور دلکش طریقے سے اتارا گیا ہے”۔
کلیم الدین احمد کے یہ خیالات میر کی شاعری کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ذہن میں غزل کی شاعری کے ساتھ ساتھ مشرقی روایت کا جو تصور ہے وہ بار بار مغرب سے ٹکراتا ہے آگے چل کر انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ عشق کا ایک خاص رخ ہی میر کو پسند ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں رونے کی کیفیت عشق کے تعلق سے بہت نمایاں ہے اگر وہ عشق کے ساتھ عاشق کی بے چینی،ہجر کی کیفیت اور اس ضمن میں آنسو کو ایک قدر کے طور پر دیکھتے تو میر کی شاعری ہی نہیں بلکہ اردو کی کلاسیکی شاعری کا اصل تہذیبی سیاق سامنے آ جاتا لیکن کلیم الدین احمد ایک سخت گیر ناقد کی طرح ہے عالمی سیاق میں شاعری کو دیکھتے ہیں اور اس سیاق کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کسی بھی تہذیبی معاشرے کو ایک پہچان عطا کرتا ہے۔ کلیم الدین کی مشکل کا احساس ان تمام لوگوں کو رہا ہے جو ان کے سخت ترین مخالف یا موافق رہے ہیں۔ میر کے بارے میں مندرجہ بالا جملوں کو پڑھ کر میر کا عاشق اور میر کا قاری کس الجھن کا شکار ہو سکتا ہے۔ وہ ظاہر ہے میر کا قاری فوری طور پر میر سے بدگمان ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کلیم الدین احمد کے ذہن کے ساتھ میر کی شاعری کو پڑھ کر وہی رائے قائم کرے جو رائے کلیم دین احمد کی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ میر کی شاعری کے سلسلے میں کچھ ترقی پسند ناقدین جن میں محمد حسن بھی شامل ہیں روایت اور کلاسک کا ذکر کرتے ہوئے میر کی عصری معنویت کو نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں میر کی شاعری کا وہی حصہ زیر بحث آیا جو انسانی اور سماجی سیاق میں بامعنی ہے۔ کلیم الدین نے میر کی قوت حاسہ کو محدود بتایا ہے اور میر کی دنیا کو تنگ قرار دیا ہے۔ اس تنگی کا نتیجہ ان کی نگاہ میں یہ ہے کہ وہ داخلی اور خارجی اثرات قبول کرتے ہیں اور ایک خاص رنگ یعنی درد و غم کو پیش نظر رکھتے ہیں اور انہی سے اپنی شعری کائنات بناتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ میر کے یہاں جو درد و غم ہے اس کی تفہیم صرف اسی طرح ممکن نہیں جس طرح کلیم الدین احمد کرنا چاہتے ہیں درد و غم اپنی ذات کے اعتبار سے صرف رونے اور بسورنے کا نام نہیں ہے اس کی اپنی ایک طاقت ہے اور وسعت بھی یہ ٹھیک ہے کہ درد و غم کی کیفیت ایک محدود دائرے میں رہ کر ہی اپنا سفر جاری رکھتی ہے اور ایک خاص صورتحال کا پتہ دیتی ہے قاری بھی فوری طور پر اسی صورتحال کا ادراک کرتا ہے درد وغم کی دنیا اگر تنگ ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے ہمارا مطالبہ بھی کیا ہو سکتا ہے یا کیا ہونا چاہیے کلیم الدین احمد نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسرور اور متبسم اثرات میر کو پسند نہیں تھے۔ پژمردہ دلی انہیں شاد کام خیال کی طرف آنے سے روکتی تھی نتیجہ اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ میر کے یہاں جذبات و تصورات میں تنوع نہیں ہے کلیم الدین احمد کی یہ تعبیرات قاری کو ٹھہر کر غور کرنے پر آمادہ ضرور کرتی ہیں وہ بھی اس خاص پہلو سے کہ میر کے یہاں جو درد و غم کی کیفیت ہے کیا واقعتا ایسا ہے کہ ان کی وجہ سے میر کے جذبات و تصورات کی دنیا محدود ہو گئی ہے خود میر کی طبیعت نے بھی خود کو اس کیفیت کا اتنا زندانی بنا لیا تھا کہ انہیں اس سے ہٹ کر غور کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن ناقدین نے درد و غم کے حامل اشعار سے جو مفاہیم برآمد کیے ہیں وہ مفاہیم میر کی شاعری کے ہیں یا ناقدین کے ذہن کی پیداوار ہیں۔میرا خیال ہے کہ میر کے انہی شعروں کی تعبیرات زیادہ ہوئی ہیں اور ان کے مفاہیم زیادہ سامنے آئے جن کا براہ راست تعلق درد و غم کی اس کیفیت سے نہیں ہے جسے کلیم الدین احمد نے عشق اور زندگی کے خاص پہلو سے جوڑ کر دیکھا ہے تخلیقی ذہن اس پہلو کی گرفت میں ہے وہ اس سے نکلنا نہیں چاہتا ۔ کلم الدین احمد نے بہت ہی دو ٹوک انداز میں میر کی گرفت کی ہے اور میر کی وسعت تخیل کو تنگ قرار دیا ہے یہ تنگی کلیم الدین احمد کی نظر میں میر کی تنگی سے کہیں زیادہ اس روایت کی تنگی ہے جس نے محدود دائرے میں سوچنے کا نہ صرف موقع فراہم کیا بلکہ اس کا پابند کر دیا تھا۔ کلیم الدین احمد نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ میر کے یہاں غور و فکر کی عادت تھی لیکن اعلی دماغی طاقت کا انہوں نے ثبوت نہیں دیا۔ تخیل کا زور تخیل کی شان و شوکت یہ سب کچھ کلیم الدین کی نگاہ میں میر کے مقابلے میں سودا کے یہاں زیادہ ہے۔ انہوں نے اس کا سبب سودا کی ذہانت کو بتایا ہے۔
کلیم الدین احمد نے میر کے تعلق سے اثر آفرینی کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا ہے یہی وہ خوبی ہے جو ان کی نظر میں اردو شاعری کے تعلق سے نایاب بھی ہے اور منفرد بھی انہیں میر سے یہ شکایت نہیں ہے کہ میر نے نئے مضمون کو باندھا نہیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ پامال مضامین کی پیشکش میں بھی کشش پیدا کی جا سکتی ہے۔ اور ان پامال مضامین کی پیشکش جدت کا احساس دلا سکتی ہے انہوں نے اس خوبی کو جدت کا نام دیا ہے ان کی نظر میں نیا پن بذات خود کوئی بڑی بات نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ شاعر بہت نئی باتیں پیدا کرے یہ ایک ایسانکتہ ہے جو کلیم الدین کی میر تنقید کو ہی نہیں بلکہ کلاسیکی شاعری کی تنقید میں بھی اہمیت کا حامل ہے۔ عام طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ شاعر نے کوئی نیا مضمون پیدا نہیں کیا اگر دیکھا جائے تو کلیم الدین احمد کلاسیکی شاعری کے ایک اہم وصف کو اپنے طور پر سامنے لاتے ہیں وہ یہ کہ پرانی باتوں اور پرانے خیالات میں بھی دلچسپی کے عناصر پیدا کے جا سکتے ہیں ان میں ایک نئی شان پیدا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر شاعر کسی مضمون یا خیال کو جوش کے ساتھ محسوس کرتا ہے یا وہ موضوع اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے تو ایسے میں بہت سامنےکی باتیں نئی معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ میر تصویر کا صرف ایک رخ دکھاتے ہیں یعنی رنج و غم لیکن وہ دوسرے رخ کو اپنا موضوع نہیں بناتے میر جبریہ اعتقاد کے قائل ہیں اور ظاہر ہے کہ جب کوئی چیز مقدر ہو گئی ہے تو اسے ہونا ہی ہے ۔یہاں کلیم الدین احمد کی تنقید میر کی شاعری کے ساتھ یوں انصاف نہیں کرتی کہ کسی شاعر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ تصویر کے کس رخ کو پیش کرے اور کس کو پیش نہ کرے۔ میر کی شاعری میں مصیبت یا رنج کا جو پہلو نمایاں ہے وہ خود ہی لکھ چکے ہیں کہ وہ ایک خاص جوش و جذبے کے ساتھ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اس کے بعد میر کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ چند کوائف ہی کی ترجمانی کرتے ہیں یہی وہ مواقع ھیں جہاں کلیم الدین کی تنقید تنقید سے زیادہ مطالبے کی دنیا بن جاتی ہے ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ پورا نہیں ہو سکتا صفائی تاثیر درد مندی یہ وہ خوبیاں ہیں جو کلیم الدین احمد کی نگاہ میں بہت اہم ہیں اسی ضمن میں انہوں نے ترنم کا ذکر کیا ہے یعنی میر کے یہاں ایک خاص قسم کا آہنگ پیدا ہو جاتا ہے جو موسیقیت کا احساس دلاتا ہے اور یہ موسیقیت حیرت انگیز سادگی کے ساتھ قاری کو متاثر کرتی ہے۔ سبک، سجل اور سامنے کے الفاظ کے ذریعے میر احساسات کی ایک دنیا کو شاعری میں داخل کر دیتے ہیں اس کی پیشکش میں ایک ایسی جامعیت ہے جو کم کم بلکہ مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ ترنم کو انہوں نے موسیقی کی روح بتایا ہے اور بار بار وہ لفظوں کا ذکر کرتے ہیں کہ لفظ جادو کی طرح اثر کرتے ہیں اور دل پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے ۔فطرت بدل جاتی ہے ہر لفظ اپنی جگہ پر بہت ہی بامعنی اور خوبصورت نظر آتا ہے انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ میر کا شعری اسلوب عام بول چال کی زبان سے قریب ہے یعنی یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ غزل کہہ رہے ہیں یا گفتگو کر رہے ہیں۔

سرور الہدیٰ
05/12/2023