”میر کو پڑھنا عمر بھر کا درد سر مول لینے کے مترادف ہے۔“: سراج منیر

یہ تحریر 181 مرتبہ دیکھی گئی

یہ جملہ سراج منیر کے مضمون کلیات میر سے ماخوذ ہے۔ مضمون میر پر لکھے جانے والے ان چند مضامین میں ہے جو میر کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے سوالات قائم کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔سراج منیر نے ابتدا میں کلاسک کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ کلاسک جب پرستش کے درجے کو حاصل کر لے تو اس کے بعد اس پر کوئی سوال یا نشان قائم کرنامشکل ہے۔ گویا ہم کلاسک کو نہ چیلنج کر سکتے ہیں اور نہ اس پر نئے زمانے کا بوجھ ڈال سکتے ہیں۔ سراج کا یہ خیال کلاسک کو نئی نظر سے دیکھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ اس مضمون میں کئی ایسے جملے ہیں جو میر تنقید میں سراج منیر کی بصیرتوں کی غمازی کرتے ہیں۔ یہ وہ بصیرتیں ہیں جو کلیات میر کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں وگرنہ عام طور پر میر کے بارے میں جو باتیں لکھی جاتی ہیں ان میں تکرار بہت ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی عقیدت مندی بھی ہے جو اس پرجوش رویے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ میر خدائے سخن ہے اور ان سے بڑا کوئی اردو میں شاعر نہیں ہے۔ یہ دونوں باتیں درست ہیں گو کہ ان پر سوالیہ نشان بھی کوئی قائم کر سکتا ہے کہ اخر ہم میر کو اردو کا سب سے بڑا شاعر کیوں کہیں؟ اور یہ بھی کہ میر کو خدائے سخن کیوں کہا جائے؟ سراج منیر نے میر تنقید کی مشکلات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے اور میر کے سلسلے میں میر تنقید جس یکسانیت کی شکار رہی ہے اس کا حوالہ بھی آیا ہے، لیکن ان کا یہ جملہ بہت پریشان کرتا ہے جو میری اس تحریر کا سرنامہ ہے۔ یعنی میر کو پڑھنا عمر بھر کا درد سر مول لینے کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے سراج منیر نے اس بات کی شکایت کی ہے کہ میر سے ہماری دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔یہ بات ایک ایسے شخص نے لکھی تھی جس کی ذہنی تربیت حسن عسکری کے زیر اثر ہوئی۔ جن کا خیال تھا کہ میر کی شاعری ہماری تہذیبی ضرورت کو پورا کرتی ہے اور یہ ضرورت غالب کی شاعری سے پوری نہیں ہو سکتی۔ سراج منیر نے میر کو اس نظر سے نہیں دیکھا،جو حسن عسکری سلیم احمد اور جیلانی کامران وغیرہ کے تنقیدی رویوں میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ رویہ ایک نئی تہذیبی ضرورت کا پتا دیتا ہے جو کسی بھی تہذیبی معاشرے میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ معاشرہ اپنی تاریخ اور روایت کے اغاز کے سلسلے میں نئے سرے سے غور کر رہا ہوتا ہے۔ سراج منیر نے میر کو نہ تو جغرافیائی حد بندیوں میں رکھ کر دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی ایسا مطالبہ کیا ہے جو مطالبہ ان کی تنقید کو تعصب اور غیر ذمہ دارانہ رویے سے قریب کر دے۔ یہ جو سراج منیر نے کہا کہ میر کو پڑھنے کا مطلب عمر بھر کا درد سر مول لینا ہے تو اس کے پیچھے میر کی شاعری کی وہ طاقت ہے جو قاری کو اندر اور باہر دونوں سے اس درجہ ریزہ ریزہ کر دیتی ہے کہ پھر انسان سنبھل نہیں پاتا اور اسی گرنے اور سنبھلنے کی کیفیت کے درمیان میر کا کوئی دوسرا شعر کسی اور عالم میں لے جاتا ہے۔ عمر بھر کا درد سر مول لینا یوں تو ایک گھاٹے کا سودا ہے لیکن میر کی شاعری اور میر کی شاعری کی قرأت یہ بتاتی ہے کہ ہر زمانہ اس درد سر کو مول لینے کے لیے تیار رہا ہے۔ یہیں سے دراصل سراج منیر کی میر تنقید ایک نئی منزل کا پتہ دیتی ہے اور قاری محسوس کرنے لگتا ہے کہ لکھنے والا میر کو فاصلے سے دیکھ رہا ہے۔ اور وہ میر کا ایسا عقیدت مند نہیں جو کہ اس کی تنقید کو مداحی کا نمونہ بنا کر رکھ دے۔ انہوں نے ادبی تاریخ پر غور کرتے ہوئے اس پہلو کوبھی پیش نظر رکھا ہے کہ کہ شاعری ایک شاعر کے یہاں جس طرح اپنی صورتیں تلاش کر لیتی ہے وہ بعد والوں کے لیے ایک چیلنج بن جاتی ہے اور پناہ گاہ بھی۔ جو لوگ روایت کو ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ان کے یہاں فکری اور نظریاتی دنیا سمٹ سی جاتی ہے۔ سراج منیر لکھتے ہیں:
”کہ روایت کا صحیح تصور بھی یہی ہے کہ آیا کوئی اجمالی وضع کسی بڑے تفصیلی پیٹرن کا حصہ ہے یا نہیں۔ سو ادبی روایت دائرہ دردائرہ پھیلتی ہوئی شکلوں کا نام ہے اور اردو میں اس کا مرکزی نقطہ میر ہے۔ظاہر ہے پہلا سوال یہ پیدا ہوگا کہ اخر میر کوہی اس کا مرکزی نقطہ کیوں قرار دیا جائے۔ ولی کیوں نہیں، غالب کیوں نہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ میر اردو کی تاریخ میں اولین شاعر تو ہے نہیں پھر کن بنیادوں پر وہ اس اعزاز کا مستحق ہے؟“
اس سوال کے بعد وہ خود ہی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سوال کیے بغیر میر کو خدائے سخن بنا دینا میر کو دفن کر دینا ہے۔ میر کو اپنی روایت کا ایک ایسا نمونہ قرار دینا جو روایت پھیلتی جا رہی ہے یا جس کی فطرت میں پھیلاؤ اور وسعت ہے، یہ نقطہ نظر میر کی شاعری نے فراہم کیا ہے۔ اسے باہر سے لا کر میر کے یہاں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ سراج منیر بار بار میر کی شخصیت اور شاعری کے تعلق سے سوالات قائم کرتے ہیں۔ وہ جوابات فراہم کرتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کہتے کہ یہ جوابات سوالات کو بے دخل کر رہے ہیں یا اب سوالات کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ سراج منیر نے یہ سوال قائم کیا ہے کہ اردو کی شعری روایت میں میر کی حیثیت کیا ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے تین اہم نقطوں کی جانب اشارے کئے ہیں:
میر کے کینوس کی وسعت
اشیاء کو ایک دوسرے میں ملا کر دیکھنے کی قوت
کائناتی مسائل سے بالکل ذاتی اور شخصی سطح پر نبردآزما ہونے کی صلاحیت
ان تین نقطوں پر غور کریں تو میر کی شاعری کا راز کھلتا نظر ائے گا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میر کا شعری کینوس کس قدر وسیع ہے اور یہی وجہ ہے کہ میر کی شاعری میں مختلف موضوعات اور میلانات موجود ہیں۔ ان کا رشتہ زندگی کے جن معاملات سے ہے وہ کسی زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔ دوسری بات بہت اہم ہے کہ میر نے اشیاء کو الگ الگ نہیں دیکھا وحدت کا ایک تصور ہے جو میر کی شاعری کو پر قوت بناتا ہے۔ تیسری بات کا رشتہ ذات اور کائنات سے ہے۔ میر کا یہ اختصاص ہے کہ وہ کائناتی مسائل کو ذاتی اور شخصی بنا دیتے ہیں۔ان تین باتوں اور نقطوں کی جانب متوجہ کرنے کے بعد سراج منیر اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ میر طہارت پسندوں کا شاعر نہیں ہے اور اس کی زندگی ڈسٹلڈ واٹرکی طرح صاف اور شفاف نہیں۔میر کی شاعری کی معنویت کسی ایک رنگ کو اسی رنگ کے ساتھ دیکھنے میں نہیں کھل سکتی بلکہ میری کی شاعری کا ایک رنگ کئی رنگوں کے ساتھ اپنا اختصاص قائم کرتا ہے اور پھر ایک تصویر بنتی ہے۔
سراج منیر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ میر نے باہر کی دنیا سے جو رشتہ قائم کیا ہے اس میں بعض اوقات تمیز کرنا مشکل ہے کہ میر کی ذات میں کائنات سمٹ آئی ہے یا کائنات میر کی اپنی ذات ہے۔ یہ اتنی بڑی بات ہے جو مشکل سے کسی کے یہاں پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ میر کو اپنے اپ سے الگ ہو کر دیکھنے کا حوصلہ بھی تھا۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ذات سے حد درجہ محبت کیے بغیر کوئی ایسی شاعری نہیں کی جا سکتی یا ایسا فن وجود میں نہیں آسکتا جس میں لو دینے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے اپ کو درمیان سے الگ کر لینا یہ کوئی شعوری عمل ہے یا غیر شعوری پھر بھی دور جدید میں بعض ادیبوں نے تخلیقی شخصیت کو کچھ اس انداز سے پیش کیا جیسے کہ تخلیقی شخصیت اور وہ شخصیت جس کا تعلق تخلیق کار کی اپنی ذات سے ہے دونوں ایک ہیں۔ وہ ایک دوسرا ادمی جو کسی تخلیق کار میں جیتا اور مرتا رہتا ہے وہ کائنات بھی ہے اور مظاہر کائنات بھی۔ کبھی وہ دوسرا آدمی پہلا ادمی بن جاتا ہے اور یہ پہلا ادمی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو دھوکے میں رکھتا ہے کہ یہ پہلا شخص ہے یا دوسرا۔سراج منیر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ خود سے الگ ہٹ کر جس طرح میر نے دیکھا ہے اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے اور یہی میر کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ انہوں نے وجودی فلسفے کا بھی ذکر کیا ہے اور ایک بہت اچھا جملہ اس سلسلے میں لکھا ہے:
”وجودی فلسفے والے کہتے ہیں کہ انسان اپنے جوہر کی تخلیق اس لیے کرتا ہے کہ وہ اپنے اپ کو اس طرح دیکھنے کے قابل ہے جس طرح روز ن دیوار سے ہمسائے کے گھر میں جھانکا جاتا ہے۔ اور یہی انسانی ذمہ داری کا منبع بھی ہے۔ میر کے ہاں اپنی ذات سے الگ ہٹ کر اپنے اپ کو ایک خارجی کائنات کے ساتھ رشتہ استوار کرتے ہوئے دیکھنے کا انداز اتنا گہرا ہے کہ اردو تو اردو دنیا کی دوسری زبانوں کی شاعری میں بھی اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ یہی قوت اصل میں میر کی صلاحیت کا منبع ہے جس سے کام لے کر وہ ذاتی کو کائناتی اور کائناتی کو شخصی میں اس طرح تبدیل کر دیتا ہے جیسے یہ خواب میں ساتھ ساتھ موجود دو شعور ہیں۔ اور آدمی کمال بے تکلفی کے ساتھ اس کے ایک منطق سے دوسرے کا سفر کر رہا ہے۔“
سراج منیر نے وجودی فلسفی کا نام نہیں بتایا لیکن دیکھا تو یہی ہے کہ کم سے کم اردو کے ادیبوں نے اپنی ذات سے اس طرف فاصلہ قائم نہیں کیا جس طرح کی مثال انہوں نے پیش کی ہے۔ کہ جیسے روز ن دیوار سے ہمسایہ کے گھر میں جھانکا جاتا ہے۔ اگر اتنا فاصلہ قائم کر لیا جاتا تو ہمارے بعض اہم ترین لکھنے والے اپنی ذات کے زنجیری بنتے اور نہ زندانی۔پھر بھی سراج منیر نے ایک اہم نقطہ میر کے تعلق سے پیش کر دیا ہے۔ یہ جو دو دنیائیں ہیں انہیں گھر آنگن بنا لینا اور کبھی اسے وسیع تر کائنات میں تبدیل کر دینا ایک بڑے تخلیقی ذہن کا متقاضی ہے۔ سراج منیر نے میر کے تعلق سے یہ بھی لکھا ہے کہ میر کی کائنات ایک سیال کائنات ہے۔ یہ نقطہ بھی بہت اہم ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کوئی تخلیقی ذہن کسی دائرے یا حد بندی کو قبول نہ کرے۔ یہیں سے ایک ایسی شعر یات کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے جو جامد نہیں ہے۔ لیکن میر کے اہم ترین نقادوں نے میر کے یہاں ایک ایسی شعریات کا سراغ لگا لیا جو مستقل تو ہے لیکن مسلسل نہیں۔ اسے طرح طرح سے ثابت بھی کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ شعریات بدلتی نہیں ہے۔سراج منیر کا نقطہ میر حسن عسکری کے تصور روایت کے خلاف ہے۔ سراج منیر میر کے تعلق سے عشق اور موت کو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ میر کے یہاں موت کا خوف نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مشرقی تہذیب میں موت وصال ہے۔ لہذا وصال خوف کا سبب نہیں ہو سکتا۔

سرورالہدیٰ
30/11/2023

Md.Sarwarul Hoda
Department of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi 25
+91-9312841255