مہاجرت کی شام

یہ تحریر 99 مرتبہ دیکھی گئی

لو آ گئی
مہاجرت کی شام سر پہ آ گئی
بجھے دلوں کے درمیاں مفارقت کی آگ ہے
مبارزت کا شور ہے
اندھیری ڈیوڑھیوں
مہیب پھاٹکوں کے غم زدہ حصار میں
گھسٹ رہے ہیں سائے خود کو کوستے ہوئے
بھٹک رہے ہیں سرد موسموں کی سنگلاخ راہ پر
مدافعت کا زور ختم ہو چکا
ٹھٹھر چکا جو لاوا دل کی تہہ میں تھا
خمیدہ گردنوں کا زعم پاش پاش ہو گیا
جو جی رہا تھا زندہ لاش ہو گیا
مغائرت کے جڑ پکڑتے خوف میں
سسکتے کانپتے ہوئے
اٹھائے جا رہے ہیں سر پہ گٹھڑیاں۔۔۔

مراجعت کی دھن کسے
وہ آگئی ہے راکھ اڑاتی ریل
پٹڑیوں پہ چیختی چنگھاڑتی
سماعتوں کو پھاڑتی ہوئی
وہ صحن غیر ہو چکے
وہ آگ سرد ہو گئی جو بستروں کی جان تھی
کسے خبر کہ لوٹنے سے قبل
دھول اڑاتی دائمی مسافتوں کے کتنے پھیر ہیں
سو پائیدان پر قدم جماتے
گھر کو آخری گھڑی
پلٹ کے ایک بار دیکھنا نصیب ہو تو ہو
وگرنہ واپسی کہاں
ابھی سے گھاس اگ رہی ہے فرش کی دراڑ میں۔۔۔