کلیم کو جواب مل نہیں رہا نکل گئے ہیں جملے اپنی بافت سے پھر گئے ...
ہم اس مشترکہ نیند سے کبھی نہیں جاگے جس کے لیے ہم دونوں نے یکساں ...
ہم اس مشترکہ نیند سے کبھی نہیں جاگے جس کے لیے ہم دونوں نے یکساں ...
مزار پر پھول رکھ دیے ہیں ہم اپنے تہوار کے دنوں میں گئے ہوؤں کی ...
لو آ گئی مہاجرت کی شام سر پہ آ گئی بجھے دلوں کے درمیاں مفارقت ...
ہم نے مردہ دلی کا جنازہ پڑھا اور دھتورے کی بیعت میں داخل ہوۓ معنویت ...
محبت آگ ہے اور حبس کے موسم میں ہوتی ہےتو پہلے سر سلگتا ہے پھر ...
رات سرکس کے تنبو اتارے گئے اور بازی گروں کو ٹرک لے گئے ایک پہیے ...
خاکدانوں کی ٹھنڈی نحوست پہ کب تک گزارا کریں آسمانوں کے چارہ گروں سے کہو ...