غزل

یہ تحریر 305 مرتبہ دیکھی گئی

رات سرکس کے تنبو اتارے گئے اور بازی گروں کو ٹرک لے گئے
ایک پہیے کی سائیکل پہ بہروپیے شہر سے زندگی کی رمق لے گئے

ان گنت لالٹینوں کو تھامے ہوۓ گیت گاتے ہوۓ خواب سے قافلے
کون جنگل کے کہرے میں کھوۓ گئے کس طرف اپنے دل کی چمک لے گئے

کیا بتاؤں کہ جدت کے بالشتیےکس تھکاوٹ کو نس نس میں بھرتے رہے
میں کہ سونے کے اوقات گنتا رہا وہ مری زندگی کا نمک لے گئے

بھنبھناتی ہوئی شہد کی مکھیاں کیسی معصوم آنکھوں کا نوحہ بنیں
کتنے سیاح جوڑوں کو رہ آشنا ماس خوروں کی بستی تلک لے گے

کس کو معلوم ہے مستقل چپ میں ڈوبی ہوئی مدرسے کی عمارت کا دکھ
چند بچے کہ سورج نکلنے پہ آۓ اور اگلے دنوں کا سبق لے گئے

ایسے ویراں سٹیشن پہ پٹرول کو کون رکتا بھلا سوچیے تو سہی
ایک پنجر کہ لوہے کی کرسی پہ ہے اور کوے کہ پوشاک تک لے گئے

بالکونی کو مڑتی ہوئی سیڑھیاں سرخ قالین پھٹتا ادھڑتا ہوا
گول میزیں تہی چاندی کے برتنوں سے ملازم طلائی ورق لے گئے

ہاۓ گاؤں کہ شہ راہ سے کٹ گیا خاک اڑتی ہے گلیوں میں بازاروں میں
واۓ ظالم کہ خط کھینچتے کھینچتے اپنے شہروں کی جانب سڑک لے گئے