پچھتاوے کا گیت

یہ تحریر 318 مرتبہ دیکھی گئی

محبت آگ ہے اور حبس کے موسم میں ہوتی ہےتو پہلے سر سلگتا ہے
پھر آنکھیں پھوٹ جاتی ہیں۔۔۔
مجھے سڑتے ہوۓ جوہڑ کی تہہ میں جھانکنا ہے
جہاں تابوت میں
ماتھے پہ ٹھنڈی پٹیاں کرتے ہوۓدو ہاتھ ساکت ہیں
(یہاں پہ جھیل تھی کوئی
جہاں وہ روشنی دیتا ہواموتی گرا تھا
وہ پاگل دیر تک روتی رہی تھی)
بہت دن ہو گئے آندھی نے آئینہ چرایا تھا
مرے ہاتھوں سے شاخیں پھوٹنے میں کچھ ہی گھڑیاں ہیں
مری ہمزاد اڑتی مکھیاں کانوں کے اندر
بھنبھناتی ہیں
مرا سر پھٹ رہا ہے
میں اس تابوت میں سالوں سے آسودہ بروگن سے لپٹنا چاہتا ہوں
محبت سے یا پچھتاوے سے کیا معلوم
مرے جنگل مجھے آغوش میں لے لے
میں تیرا تنہا مجرم ہوں
مرے خلیوں کو اپنی ایکتا میں جذب کر لے
میں تیرا تنہا مجرم ہوں
کہ میرا تخم اسی مٹی میں پھوٹا ہے
جہاں پہ کارخانہ چل رہا تھا
وہی بیماری جو تجھ کو، مجھے اور ہاں۔۔۔
اسے بھی کھا گئی تھی!
مجھے آغوش میں لے لے
مجھے اس ٹھنڈے پنجر سے ملا دے
بہت پہلے تجھے جو اپنی حدت دے چکا ہے
کہ میں اس کا بھی مجرم ہوں
مری سانسوں میں اپنے حبس کو اتنا بڑھا دے
کہ آنکھیں بھاپ ہو جائیں
میں پھسلوں اور
مجھے پانی اسی گہرائی میں رکھ لے
میں اپنے پاؤں سے اک بھاری پتھر باندھ لیتا ہوں!