نظم

یہ تحریر 313 مرتبہ دیکھی گئی

ہم نے مردہ دلی کا جنازہ پڑھا اور دھتورے کی بیعت میں داخل ہوۓ
معنویت سے خالی دنوں کو تجا خوابشاروں کی جنت سے واصل ہوۓ

خواب ہوتی ہوئی سر خوشی کی قسم ہم وہیں تھے انھیں تنگ گلیوں کے بیچ
اُس پرانے محلے کا کچھ نام تھا۔۔ ہم جہاں زندہ رہنے کے قابل ہوۓ

بچپنےکے تڑختے ہوۓ کانچ پر رقص کرتے تھے ہم خواب کی آنچ پر
کیا خبر کرچیاں پاؤں میں کب چبھیں کب ہم اپنی ہی خواہش کے قاتل ہوۓ

کون درزن ہے جس نے ہمارے لیے زندگی کی قمیضوں پہ بخیہ کیا
ہاتھ کس کے سویٹر پہ دل کاڑھتے کاڑھتے ککڑیوں سے مماثل ہوۓ

ایک دن ٹوٹی قبروں سے ایسا ڈرے تیز بھاگے تو چپل وہیں رہ گئی
اور پھر منتوں کے، مرادوں کے دھاگے ہماری دعاؤں میں شامل ہوۓ

نیند دنیا کی اسفنج نے چوس لی اپنی آرام کرسی سے اٹھنا پڑا
چاۓ کپ میں پڑی ٹھنڈی ہوتی رہی پینے والے ہوا کے مقابل ہوۓ

کیا کہا ایک بستر کا کمرہ لیا مسکراتے ہوۓ مرد سے اور پھر۔۔۔
پر یہ ہوٹل تو برسوں سے خالی ہے اس بھوت بنگلے میں تم کیسے داخل ہوۓ