مصنوعی ذہانت ادب کو مہمیز دے گی

یہ تحریر 2288 مرتبہ دیکھی گئی

س:       والد اور والدہ کا نام۔

ج:        ابوالفضل عباس/ انصار زہرہ

س:       سال اور تاریخ پیدائش ۔

ج:        ۲۲- دسمبر ۱۹۴۸

س:       کیا خاندان میں پہلے بھی کسی کو ادب یا تعلیم سے لگاؤ تھا؟

ج:        میرا تعلق ایک علم دوست علم پرور خاندان سے ہے – میرے دادا مولوی ضیاء محمد ایک عالم فاضل شخصیت تھے اس دور میں اردو میڈیم وکیلوں کو مختار کہا جاتا تھا – ضلعی سطح کے معروف وکیل تھے-شاعر بھی تھے اور مصنف بھی- دیوانی قوانین پر ان کی ایک کتاب آج بھی پنجاب یونیورسٹی کی مین لائبریری میں موجود ہے- میرے والد بھی شاعر تھے ، منقبت اور مرثیہ کہتے تھے والدہ بھی بڑے اعلئ ادبی ذوق کی حامل تھیں ان کو انیس و دبیر کے پورے پورے مرثیے ازبر تھے۔

س:       آپ نے لڑکپن میں کبھی سوچا تھا کہ آپ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں گے یا ادب شناس بنیں گے۔

ج:        تدریس کا پیشہ میری چوائیس ہے- میری پہلی ملازمت پروگرام پروڈیوسر ریڈیو پاکستان راولپنڈی تھی جس سے مستعفی ہو کر میں نے شعبہ تعلیم میں شمولیت اختیار کی۔

س:       کیا ابتدائی دور میں ایسی شخصیات کے پاس اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا جن کی وجہ سے آپ کے دل میں ادب شناسی کا جزبہ بیدار ہوا؟

ج:        جی ہاں کالج  کے دور میں لاہور ریڈیو کا ہفتہ وار پروگرام یونیورسٹی راؤنڈ اپ کمپیئر کرتا تھا ریڈیو کا لاہور سٹیشن اس دور میں علم و ادب  کا مرکز تھا وبا ں مجھے اپنے دور کے معروف ادیب و شعرآسے نہ صرف ملنے بلکہ سیکھنے کے مواقع میسر ہوئے ان میں سید عابد علی عابد، صوفی تبسم، ناصر کاظمی، انتظار حسین، اشفاق احمد ، احمد ندیم قاسمی شامل ہیں- پنجاب یونیورسٹی پہنچا تو ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم ، سجاد باقر رضوی ، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر ناظر حسن زیدی، ڈاکٹر عبیداللہ خان، ڈاکٹر تبسم کا شمیری اور ڈاکٹر سہیل احمد خان  جیسے اساتذہ کی صحبت نے میری شخصیت کی تعمیر و تشکیل کی- اسی تربیت نے مجھے اس قابل بنایا کہ میرا ایم اے کا مقالہ – اردو میں قومی شاعری- نہ صرف کتابی شکل میں شائع ہوا بلکہ اسے اس دور کا معروف ادبی ایوارڈ “آدم جی ایوارڈ “ بھی ملا-

س:       شعبہ تعلیم سے آپ کی کیا یادیں وابستہ ہیں؟

ج:        بے حد خوشگوار

س:       جو اردو نصاب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟

ج:        لمبی بحث ہے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں – یہ میرا خاص موضوع بھی ہے کہ میں نے برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی سے نصاب سازی کے موضوع پر ماسٹرز کی ڈگری لی ہے-

س:       اگر نصاب میں تبدیلیاں ضروری ہیں تو ان کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔

ج:        یہ کہانی پھر سہی۔

س:       معاصر ادبی صورت حال پر آپ کی نظر ہے. کیا افسانے، ناول، شاعری اور تنقید کے میدان میں ہمارے قدم آگے بڑھے ہیں یا رکے ہوئے ہیں؟

ج:        ہم علمی ادبی تہذیبی اور  ثقافتی اعتبار سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں بلکہ گلوبل برادری کے ساتھ ہم قدم ہیں اور اب تو کیفیت یہ ہے ع ستارے جس کی گرد راہ ہیں وہ کارواں تو ہے۔

س:       کوئی نیا ادیب یا شاعر جس نے آپ کو چونکایا ہو۔

ج:        ہر وہ ادیب اور شاعر جس کے ہاں جدت فکر اور تازگیِ تخیل ہے- نئی نسل سے میں بہت متاثر ہوں

س:       تیزی سے بدلتی دنیا میں، جہاں مصنوعی ذہانت کا بہت چرچا ہے،کیا ادب کی گنجائش رہ جائے گی؟

ج:        مستقبل میں مصنوعی ذہانت ادب کو  مہمیز دے گی۔

س:       کیا اخباری زبان، جو وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے، زبان کے حق میں زہر ثابت ہو گی؟

ج:        پریشانی کی ضرورت نہیں ابتدا اسی طر ح ہوتی ، آ ہستہ آہستہ سب کچھ اپنی جگہ پر آجاتا ہے۔

س:       اس کے علاوہ اگر آپ کسی معاملے پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو خوب ہو گا۔

ج:        آپ کے ذہن رسا اور اپج  کی داد اور کامیابی کی دعائیں – آپ کے زمانہ طالب علمی ہی سے میں آپ کی اٹھان دیکھ رہا ہوں اور ہمیشہ آپ کی جدت طراز یوں کا قائل رہا ہوں – موجودہ مثال “ اوراق سبز” ہے-