محمود فاروقی اور محمد کاظم کی داستانیں

یہ تحریر 1250 مرتبہ دیکھی گئی

                کسے توقع تھی کہ ہماری جدید تہذیب میں داستان کااحیا ہو سکتا ہے؟بلکہ توقع سے پہلے کی منزل پر نگاہ ڈالیں تو کہہ سکتے ہیں کہ کسے خبر تھی کہ داستان بھی کوئی فن ہے؟ اردو فارسی پڑھنے والے طالب علموں کو شاید کچھ معلوم رہا ہو، لیکن وہ بھی اسی حد تک، جس حدتک کہ ان کے استادوں نے بتایا تھا۔اور جو بتایا تھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ داستان در اصل ناول کی غیر ارتقا یافتہ شکل ہے۔ بیانیے کے فن،یا بیانیے کے ذوق نے انسان کو نئی نئی طرز کے بیانیے ایجاد کرنے کی طرف مائل کیا اور داستان اسی طویل، ذرا گم نام قسم کے ارتقائی سفر کی ایک منزل تھی جو آئی اور بہت جلد گذر گئی، اور ناول ہی در اصل بیانیہ کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شکل ہے۔ لہٰذا داستان کے بارے میں جو حکم لگے گا وہ اسی اعتبار سے، اور اسی تناظر میں لگے گا کہ وہ بیانیہ کے ارتقائی سفر میں ایک گم گشتہ منزل ہے،اور اس کی اچھائی برائی کے بارے میں جو فیصلہ ہوگا وہ انھیں اصولوں کی روشنی میں ہوگاجن پر ناول کی شعریات کا دار و مدار ہے۔

                اس بات سے قطع نظر کہ اوپر بیان کی ہوئی سب باتیں غلط ہیں، اس میں بہر حال کوئی شک کسی کو نہ تھا کہ داستان اور داستان گوئی آج بھی ہمارے لئے کچھ دلکشی یا معنویت رکھ سکتی ہیں۔لیکن محمود فاروقی، انوشا رضوی، اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں نے دنیا کو دکھا دیاکہ داستان اب بھی زندہ ہے، یا زندہ کی جاسکتی ہے۔لیکن اس کے لئے دو چیزوں کی ضرورت تھی:ایک تو کوئی ایسا شخص جو داستان کو بخوبی جانتاہو اور اس سے محبت کرتا ہو۔ایسا شخص آج بالکل معدوم نہیں تو بہت ہی کمیاب ضرور ہے۔ دوسری چیز جو احیاے داستان کے لئے لازم تھی وہ تھا ایسا شخص جو اردو خوب جانتا ہو، فارسی بقدر ضرورت جانتا ہو، اور اسے اداکاری میں بھی خوب درک ہو، یعنی اسے بیانیہ اور مکالمہ کو ڈرامائی طور پر ادا کرنے پر قدرت ہو۔

                اسے اردو ادب کی، داستان کی، اور خاص کر کے ہماری خوش نصیبی تصور کرنا چاہئے کہ داستان گوئی کے دو بارہ جنم کی داستان کے لئے ناگزیر متذکرہ بالا کردار ایک وقت میں اور ایک جگہ جمع ہو گئے۔شیکسپیئر کے ڈرامے ’جولیس سیزر‘ میں انٹونی کے جملے کی طرح کا معاملہ رونما ہو گیا کہ’اب اسے اپنا کام کر نے دیں۔فتنہ، اب تو بیدار ہے، جو راہ چاہے اختیار کر۔‘

                Now let it work. Miscief! thou art afoot

                Take now what course thou wilt.

                داستا ن گوئی کو میں نے فتنہ کہا تو اس معنی میں کہ داستان کے خلاف جو کچھ کہا اور لکھا گیا تھا،اس میں اس بات پر خاص تاکیدتھی کہ داستان ’غیر عقلی، خیالی اور واقعیت سے خالی‘باتوں کا مجموعہ ہے، اسے ’حقیقی زندگی‘ سے کوئی سروکار نہیں۔اس میں ناول کی طرح کی پلاٹ سازی ہے نہ کردار نگاری۔وغیرہ۔تو ایسوں کی نظر میں داستان اور داستان گوئی کو دوبارہ فروغ دینا ’ادب کے لئے ایک فتنہ‘قرار دیا جاتا تو کیا عجب تھا۔لیکن ایسا ہوا نہیں۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ داستان کا بیانیہ اس قدر حاکمانہ، اس قدر مستحکم، اور ہماری کئی جبلتوں کو بیک وقت بیدار کر دینے والا ایسافن پارہ ہے جو زمانے کے فیشن اور وقتی مصلحتوں  کے دباؤکو کاٹتاہوا اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔دوسری وجہ غالباً یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تفریح کے مختلف ذرائع کثیر تعداد میں رائج ہیں۔داستان گوئی کو بھی انھیں میں سے ایک ذریعہ سمجھا گیااوربیانیہ کے فن کی متعدد باریکیوں کی وجہ سے اسے خاص توجہ اور تحسین سے دیکھا اور سنا گیا۔

                اب محمود فاروقی اور محمد کاظم اپنی کہی ہوئی داستانوں پر مشتمل ایک اور کتاب بازار میں لا رہے ہیں توداستان گوئی کا ایک جدید روپ بھی سامنے آچکا ہے۔بلکہ ہم کہیں کہ دو جدید روپ ہیں، تو غلط نہ ہوگا۔اصل روپ تو وہی پرانی ’طلسم ہوش ربا‘  ہے،کہ اس کی داستانوں میں سے انتخاب کر کے اور ’طلسم ہوشربا‘ کی بعض عبارتوں کو نئے سرے سے ترتیب دے کرایسا داستانی بیانیہ پیش کیا جائے جو ’طلسم  ہوش ربا‘ہی کہا جائے گا۔پہلا جدید روپ وہ ہے جس میں معاصر زندگی یا فوری گذشتہ تاریخ کو داستانی رنگ دے کر اور کبھی کبھی ’طلسم ہوش ربا‘کے بعض مقبول کرداروں کو بھی (خواہ نام کی حد تک سہی)شامل کر کے ایسا بیانیہ ترتیب دیا جاتا ہے جس میں ’طلسم ہوش ربا‘ کا کچھ ذائقہ محسوس ہوتا ہے، لیکن جو کچھ بیان ہوتا ہے اس کا روایتی داستان امیر حمزہ(’طلسم ہوش ربا‘ اس کا مقبول ترین حصہ ہے)کے واقعات اور صورت حالات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔         دوسرا جدید روپ وہ ہے جس کا اب تک کا سب سے مشہور اور مقبول نمونہ’داستان کرن از مہابھارت‘ہے۔یہاں طرز سب داستان گوئی کے ہیں لیکن بنیاد داستان امیر حمزہ نہیں، بلکہ مہابھارت ہے۔بیانیے میں اردو کے ساتھ دوسری زبانیں حسب ضرورت ملا کرروایتی داستان کے طرز کو ذرا اور’روایتی‘ بنایا گیا ہے۔

                یہ دونوں نئے طرز اپنی جگہ پر بہت دلکش اور قوت مند ہیں۔لیکن ان کا وجود اور ان کی مقبولیت داستان گوئی اور خود داستان کی آئندہ زندگی کے بارے میں کچھ سوال بھی پیدا کرتے ہیں۔محمود فاروقی نے اول روز ہی سے داستان گوئی میں بعض جدتیں داخل کر دی تھیں، مثلاًدو یا کبھی کبھی دو سے بھی زیادہ داستان گویوں کا ایک ہی پیشکش میں شریک ہونا، ساقی نامہ اور چہرہ کے اشعار بھی مشترکہ قرأت کے ذریعہ ادا کرنا، بہت تھوڑا سہی، لیکن اسٹیج کو اسٹیج کا رنگ دینے کا کچھ انتظام اور داستان گو (یا داستان گویوں)کا تھوڑا بہت میک اپ۔ یہ سب ترکیبیں سامعین کو پسند آئیں اور برقرار رکھی گئیں۔

                تو اب سوال یہ ہے کہ کیا داستان گوئی میں کچھ مزید نئی چیزیں داخل کرناضروری ہے، یا داستان کے لئے مضر؟ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ داستان امیر حمزہ، جو تمام داستان گویوں کا ملجا اور ماوا رہی ہے، اسے نظر انداز کے کسی اور طرح کی داستانیں پیش کرنا کہاں تک درست ہے؟کیا اس طرح داستان گوئی کا اصل کردار تبدیل نہ ہو جائے گا؟داستان کی شعریات اس بات کی گنجائش تو رکھتی ہے کہ اس میں معاصر دنیا کہیں نہ کہیں سے در آسکتی ہے، اور داستان گویوں نے اس سے کچھ کام بھی لیا ہے، مثلاًطنزیہ انداز میں انگریزی راج کا ذکر۔ جیسے ’طلسم ہوش ربا‘ میں ایک شہر ہے، جس کا نام ’شہر ناپرساں‘ہے۔اس شہر میں کاغذ کا سکہ چلتا ہے اور امیر حمزہ کا نواسہ وہاں سے گذرتا ہے تو خوب ہنستا ہے کہ بھلا کاغذ کا بھی سکہ کہیں ہوتا ہے! لیکن اگر پوری داستان معاصر دنیا ہی کے بارے میں ہو، تو پھر داستان گو کے بارے میں خیال گذر سکتا ہے کہ وہ داستان امیر حمزہ کو قائم بالذات بیانیہ نہیں سمجھتا، بلکہ اس کی جگہ معاصر حالات کا بیان ڈال کر وہ خود کو افسانہ نگاروں کے عام دھارے میں شریک کرنا چاہتا ہے۔

                محمود فاروقی کے بارے میں یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ داستان امیر حمزہ سے خود کو دور رکھنے کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی جدید داستانوں کو داستان گوئی کے فن کا ایک نیا انداز ضرور کہا جانا چاہئے۔محمو د فاروقی نے صحیح کہا ہے کہ داستان گوئی در اصل ’داستان گھڑنے‘کا فن ہے۔زیر نظر مجموعے میں بھی امیر حمزہ پر مبنی کئی چیزیں ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ رفتہ رفتہ ان کی داستان گوئی  میں اور بھی رنگ پیدا ہوں گے اور سب کا رشتہ داستان امیر حمزہ سے مضبوط، بلکہ مضبوط تر ہو گا۔ ’داستان کرن‘کی کامیابی اور مقبولیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ روایتی بیانیہ میں ایسی قوتیں اور اقدار ہیں جو کہیں اور نہیں ملتیں۔

نئی دہلی، مارچ ۲۰۱۸                                                      شمس الرحمٰن فاروقی