لاہور میرے اندر، میرے باہر

یہ تحریر 2014 مرتبہ دیکھی گئی

(3)

چوتھا پڑاؤ:

پوچھو مجھے اے ہم نفساں کون ہوں، کیاں ہوں

انسان اپنے ماحول کی پروڈکٹ ہوتا ہے۔ ماحول میں خاندان، اساتذہ، احباب اور وہ لوگ شامل ہیں، جو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ٹکراتے ہیں، اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اگر پھر وہ کچھ جو اس کے اردگرد ہوتا ہے۔ یہاں لاہور کا ذکر مکمل ہوا۔ اب کچھ ذرا اپنا ذکر بھی ہو جائے۔

اس حصے کے لیے میں نے اپنے بہت ہی عزیز اور محترم استاد پروفیسر سجاد باقر رضوی  کے ایک مصرعے کو سرنامہ قرار دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی یہ پوری غزل مجھے اپنے دل کی آواز لگتی ہے، میں کون ہوں، کیوں ہوں کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا علم ہے کہ میرا ہونا، میرے نہ ہونے کی جانب ایک سفر ہے۔ کیوں کہ قرآن حکیم کا فیصلہ ہے کل من علیھا فان۔

اردو شعرا نے بھی اپنے اپنے انداز میں اپنے ہونے اور نہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اپنی اپنی سوچ کے مطابق انسان کے آغاز اور انجام پر اشعار کہے ہیں:

زندگی کیا ہے عناصر کا ظہور ترتیب

موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشان ہونا

(چکبستؔ)

موت اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

(میرؔ)

نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردہِ ساز

میں ہوں اپنی شکست کی آواز

(غالب)

کون کہتا ہے کہ موت آئے گی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

(احمد ندیم قاسمی)

اب باقر صاحب کی غزل کے اشعار ملاحظہ کیجیے:

پوچھو مجھے اے ہم نفساں کون ہوں کیا ہوں

یارو میں کوئی حشر کے میداں میں کھڑا ہوں

تم رنگ میں دیکھو تو ہوں مرجھایا ہوا پھول

آواز مِیں مَیں ٹوٹتے شیشے کی صدا ہوں

ہوں بند خیالوں میں کہ جوں پھول میں خوشبو

آزادہ روی میں صفتِ موجِ صبا ہوں

خواہش پہ مجھے ٹوٹ کے گرنا نہیں آتا

پیاسا ہوں مگر ساحلِ دریا پہ کھڑا ہوں

شاید یہی تریاق بنے زہر فنا کا

میں تلخیِ ایام کاست کھینچ رہا ہوں

رات آئے تو سو جاؤں اندھیروں سے لپٹ کر

میں صبح سے ڈرتا ہوں کہ سورج کا ڈسا ہوں

اس دورِ خرافات میں بے قدر ہوں پھر بھی

تو جتنا سمجھتا ہے میں کچھ اس سے سوا ہوں

ہر رنگ ہر آہنگ میرے سامنے عاجز

میں کوہِ معانی کی بلندی پہ کھڑا ہوں

نکلیں گی چٹانوں سے میری فکر کی نہریں

میں لفظ کے تیشے سے انھیں کاٹ رہا ہوں

پیدا میرے نغموں سے ہوئیں نور کی لہریں

میں خالقِ تہذیب اندھیروں کی ضیا ہوں

باقر مجھے کچھ دادِ سخن کی نہیں پروا

میں شہرِ خموشاں میں ہوں اور نغمہ سرا ہوں