قرأت، تعبیر، تنقید

یہ تحریر 2069 مرتبہ دیکھی گئی

(۱)

قرأت اور تنقیدی قرأت

ہم ادب کے عام قاری ہوں یا تنقیدی قاری ہوں، دونوں ہی حیثیتوں میں ہم فن پارے کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ ہر فن پارہ تعبیر کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن ہمارا یہ کہنا کافی نہیں۔ اس قول، یا اس دعوے کے ساتھ یہ بھی کہنا، یا یہ دعویٰ بھی کرنا، ضروری ہے کہ قاری یا تنقیدی قاری کی حیثیت میں عموماً ہم اس مفروضے پر عمل کرتے ہیں کہ معنی کے اعتبار سے کوئی فن پارہ دو حال سے خالی نہ ہو گا:
(۱) فن پارے کے معنی صرف وہی نہیں جو پہلی قرأت پر ہماری سمجھ میں آئے تھے۔ یا
(۲) فن پارے میں اتنے ہی معنی نہیں جتنے پہلی قرأت پر ہمیں نظر آئے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کسی تحریر کے بارے میں گمان کر لیتے ہیں کہ وہ فن پارہ ہے، تو ہم یہ بھی گمان کر لیتے ہیں کہ اس کے معنی کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ اور یہ اختلاف صرف دو پڑھنے والوں کے درمیان نہیں، بلکہ خود ہمارے اندر بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ممکن ہے ہم کسی وقت کسی فن پارے کے کچھ معنی بیان کریں اور دوسرے وقت ہم خود اسی فن پارے کے معنی کچھ اور بیان کریں۔پہلی صورت کی مشہورمثال فیض کی نظم ”صبح آزادی“ ہے۔ جب یہ نظم شائع ہوئی تو عام پڑھنے والوں کا گمان اس کے بارے میں یہ تھا کہ یہ بہت اچھی نظم ہے کیونکہ اس نظم میں ہمیں متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھیں سیاسی آزادی تو مل گئی لیکن اصل آزادی ابھی ملنا باقی ہے۔ یہ بھی خیال کیا گیا کہ اس نظم میں ایک معنی اور بھی ہیں، اور وہ یہ کہ نظم اس تشدد اور غارت اور ظلم اور بہیمیت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس کا بازار آزادی کے وقت سارے بر صغیر میں گرم ہوا۔ لیکن اس عام تاثر کے برخلاف سردار جعفری نے اس نظم کو ناکام ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ نظم میں جو باتیں کہی گئی ہیں انھیں تو کوئی بھی شخص کہہ سکتا تھا، وہ مسلم لیگی ہو یا ہندو مہا سبھائی یا کوئی اور۔ یعنی سردار جعفری کے خیال میں نظم اس لئے ناکام تھی کہ اس میں مارکسی فکر نہ تھی۔ یعنی شاعر نے اس باب میں براہ راست کچھ نہ کہا تھا کہ کمیونسٹ انقلاب ابھی واقع نہیں ہوا ہے۔ اور انقلاب پر جو کہا بھی گیاتھا وہ بس اتنا تھاکہ ع چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔لہٰذا یہ نظم سیاسی طور پر غیر پختہ تھی۔ اور نظم چونکہ سیاسی طور پر غیر پختہ تھی لہٰذا وہ شاعری کے طور پر بھی ناکام تھی۔
کسی فن پارے کے معنی کسی شخص کے لئے کبھی کچھ ہو سکتے ہیں اور کبھی کچھ، یہ دوسری صورت ہے جو فن پارے کی قرأت یا اس پر تنقیدی اظہار خیال کے دوران عموماً پیش آتی ہتی ہے۔ فانی کا مشہور شعر ہے ؎
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
اس شعر کے بارے میں رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ اس کے معنی تب میری سمجھ میں آئے جب میں اپنی بیٹی کے غم میں نڈھال تھا۔ ظاہر ہے کہ رشید صاحب کا مطلب یہ نہ تھا کہ اس واقعے کے پہلے انھیں اس شعر کا مطلب معلوم ہی نہ تھا۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اس شعر میں جس جذباتی کیفیت اور روحانی کرب کا ذکر ہے اسے سمجھنے کے لئے انسان کے پاس درد مند اور زخمی دل ہونا ضروری ہے۔ خیر، یہ تو جذباتی رد عمل کی بات ہوئی، لیکن رومن یاکبسن (Roman Jacobson)نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ڈبلیو۔ بی۔ یے ٹس(W. B. Yeats)کی نظم The Sorrows of Loveکو میں مدتوں سے پڑھتا رہا ہوں اور میرا خیال تھا کہ میں نے اسے پوری طرح سمجھ لیا ہے۔ لیکن ایک دن جب میں ٹرین میں بیٹھا ہوا کہیں جا رہا تھا تو اچانک میرے ذہن میں اس نظم کے معنی کا ایک نیا پہلو کوند گیا۔ میرا خیال ہے یاکبسن کا سا تجربہ ہم سب کو کبھی کبھی ہوتا ہوگا۔میں اپنا ایک تجربہ ابھی تھوڑی دیر میں بیان کروں گا۔
جب ہم معبر یا نقاد کی حیثیت سے کسی فن پارے کے معنی کو بیان کرنے بیٹھتے ہیں تو یہ عمل بھی دو حال سے خالی نہیں ہوتا۔یعنی فن پارے کے معنی پر کلام کرتے وقت ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر دو میں ایک مفروضے پر عمل کرتے ہیں۔
(۱) فن پارے کے جو معنی ہم بیان کر رہے ہیں وہی معنی منشاے مصنف میں تھے۔ یعنی ہمارے بتائے ہوئے معنی کے صحیح پن (Validity) کی ضمانت خود مصنف سے ہمیں حاصل ہے۔یا
(۲)ہمارامفروضہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں منشاے مصنف سے کوئی غرض نہیں۔ جو معنی ہم بیان کر رہے ہیں وہی معنی فن پارے میں ہیں خواہ منشاے مصنف ان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
ملحوظ رہے کہ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے معنی اور مصنف کے بتائے ہوئے معنی میں مطابقت ہوتی ہے، یا جو متعدد معنی ہم نے بتائے کئے ہیں ا ن میں سے ایک، یا چند معنی مصنف نے بھی بیان کئے تھے۔ لیکن دوسرے مفروضے کی روشنی میں یہ بات ہمارے لئے محض اتفاقی بات ٹھہرتی ہے اور اس سے ہمارے اس اصول پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ جو معنی ہم بیان کر رہے ہیں در حقیقت وہی معنی فن پارے میں ہیں۔

قرأت اور نظریہئ قرأت                
اوپر جو کچھ کہا گیا ہے وہ ادب کی قرأت، بلکہ ادب کی تنقید یا تنقیدی قرأت کی بنیادی صورت حال پیش کرتا ہے۔اس صورت حال میں بہت سے مسائل اور سوالات مضمر یا زیر زمیں ہیں۔ میں انھیں درج کئے دیتا ہوں لیکن اس وضاحت اور اس شرط کے ساتھ کہ اوپر بیان کردہ صورت حال یہ بھی فرض کرتی ہے کہ ہمیں حسب ذیل مسائل اور سوالوں کے جواب معلوم ہیں:
(۱) ”فن پارہ“ کسے کہتے ہیں؟ یعنی ہم کس طرح متعین کرتے ہیں کہ فلاں تحریر فن پارہ ہے اور فلاں تحریر فن پارہ نہیں ہے؟
(۲) اگر فن پارہ کوئی چیز ہے تو پھر فن پاروں کے بارے میں ”بہت اچھا“،”اچھا“، ”کم اچھا“، اور ”خراب“ کا حکم لگ سکتا ہو گا۔
(۳) یا شاید ایسا نہیں ہے، کیونکہ”اچھا“ ہونا شاید فن پارہ ہونے شرط ہے۔ یعنی اگرفن پارہ ہے تو اچھا ہی ہو گا۔

(۴) ”قرأت“ کے معنی ہیں کہ ”قاری“ بھی کوئی شے ہے۔کسی فن پارے کا ”قاری“ اسے کہیں گے جو اس زبان سے بخوبی واقف ہو جس زبان میں وہ فن پارہ لکھا گیا ہے۔
(5) ”زبان“ سے ہم وہی مراد لیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ مثلاً جن اصولوں یا جن رسومیات یاجن تہذیبی تصورات اور شعریات کی رو سے کوئی فن پارہ با معنی بنتا ہے، انھیں فن پارے کی”زبان“ میں شمار کریں یا نہ کریں، یا شمار کریں تو کس حد تک، یہ فیصلہ ہم کرتے ہیں۔
(۶) ”معنی“ سے مراد یہ ہے کہ کسی فن پارے کو پڑھ کر جو کچھ ہمیں حاصل ہوسکتا ہے وہ اس فن پارے کے معنی ہیں۔
(۷) لیکن اس کا مطلب شاید یہ نہیں ہے کہ ہم کسی فن پارے کے معنی غلط سمجھیں اور دعویٰ کریں کہ یہی اس کے معنی ہیں۔
(۸) یعنی معنی کے لئے بھی شاید یہی شرط ہے کہ کسی فن پارے کے معنی کی حد تک معنی وہی کلام ہے جو”صحیح“ ہو۔ جو صحیح نہیں وہ معنی نہیں۔ اوریہ فیصلہ ہم کریں گے کہ کوئی معنی ”صحیح“ ہیں کہ نہیں۔
(۹) ”ہم“ بڑی باریک اصطلاح ہے۔ لیکن ہر قاری خود کو ”ہم“ کا مصداق سمجھتا ہے۔
ملحوظ رہے کہ جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے اس میں تنقیدی نظریہ سازی بالکل نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ نکات کسی پہلے سے موجودتنقیدی نظریے کی تفصیل بتانے کی کوشش ہیں۔اوپر درج کردہ نکات صرف اس صورت حال کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں جو ان چار مفروضوں میں مضمر تھی جو میں نے شروع میں درج کئے تھے۔لیکن ایک بات جو اس تفصیل سے بر آمد ہوتی ہے وہ یہ کہ اسے آپ شاید ایک طرح کا ”نظریہئ قرأت“ یا ”قرأت کے بارے میں ایک نظریہ“کہہ سکتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ اسی نظریے کی رو سے ہم سب اپنے اپنے طور پر فیصلہ کرتے ہیں کہ ”فن پارہ“ کسے کہتے ہیں۔ پھر ہم لوگ اپنے اپنے طور پر فن پارے کے معنی بیان کرتے ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم صرف معنی ہی نہیں بتاتے، بلکہ ہم فن پارے (یا جس چیز کو ہم فن پارہ کہہ رہے ہیں)، اس پر اظہار خیال بھی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ اظہار خیال ہمیں فن پارے سے، اور خود اپنے سے دور لے جاتا ہے۔پھر لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے، وہ پوچھتے ہیں کہ کیا تنقید اسی کو کہتے ہیں؟ یا، کیا کسی فن پارے کے معنی یوں بیان کئے جاتے ہیں؟ جب یہ شکایت بہت زور پکڑ لیتی ہے تو پھر ہم میں سے کوئی اٹھتا ہے اور ”تنقید“ کی ایک اور کتاب لکھ دیتا ہے۔ یا طالب علموں کو مطمئن کرنے (یا خاموش کرنے) کے لئے ایک اور سیمینار یا لیکچر منعقد کر دیا جاتا ہے۔
تو کیااس کا مطلب ہم یہ سمجھیں کہ قرأت کے عمل میں کوئی تنقیدی نظریہ شامل ہوتا ہی نہیں؟ظاہر ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے، تنقیدی نظریہ تو ہر قرأت میں شامل ہوتا ہے۔کوئی فن پارہ غزل ہے کہ نہیں، یہ فیصلہ بھی ہم کسی تنقیدی نظریے کی روشنی میں کرتے ہیں۔ اور کسی فن پارے سے کوئی توقع وابستہ کرنا بھی تنقیدی نظریے ہی کی روشنی میں ممکن ہے۔ہم توقع کرتے ہیں کہ افسانے میں کردار کے جنسی جذبات و محسوسات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یہ توقع ہم ایک تنقیدی نظریے کے سبب سے کرتے ہیں جس کی رو سے کرداروں کی داخلی زندگی اور جذباتی کوائف بیان کرنا فکشن کے لئے ضروری ہے۔ اور اسی توقع کی روشنی میں ہم کہتے ہیں کہ انتظار حسین اورقرۃ العین حیدر کے افسانوں میں عورت کی تصویر کشی اطمینان بخش نہیں ہے کیونکہ وہ ہمیں اپنی عورت کرداروں کے جنسی خیالات، محسوسات، جذبات، کامیابیوں، ناکامیوں، وغیرہ کے بارے میں کوئی اندر کی بات نہیں کہتے، صرف سرسری اور سطحی، یا ظاہری بیان پر مبنی اشارے کرتے ہیں۔
پڑھنے کا فیصلہ کرنا اور فن پارے سے کچھ تقاضے کرنا اپنے آپ میں ایسا عمل ہے جوکسی تنقیدی نظریے کی روشنی میں انجام پاتا ہے۔مشکل صرف یہ ہے کہ جب ہم فن پارے کو پڑھنے کے بعداس پر اظہار خیال شروع کرتے ہیں تو تنقیدی نظریے یا نظریات سے بہت زیادہ اور بہت مختلف تصورات اور تعصبات بھی ہمارے کلام میں درآ تے ہیں۔ اکثر یہ عمل ہماری بے خبری میں وقوع پذیر ہوتا ہے، اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم باطنی طور پر شکست مان کر فن پارے کے بارے میں تجزیاتی اظہار خیال ترک کرکے فن پارے کے بارے میں محض گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔ دونوں حالات میں نتیجے کے طور پرجو تحریر وجود میں آتی ہے اسے مزے داربکواس یامعلومات آگیں بات چیت کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔