غزل

یہ تحریر 108 مرتبہ دیکھی گئی

تجھ سا ترا خیال مرے ساتھ ساتھ تھا
شہرِ شبِ وصال مرے ساتھ ساتھ تھا

میں تھا کہاں تھا مجھے کچھ خبر نہ تھی
ازبسکہ اک سوال مرے ساتھ ساتھ تھا

واں دشتِ زندگی میں زمانوں کی ریت پر
غم کیچوے کی چال مرے ساتھ ساتھ تھا

پھیلی تھی دور دور تلک نکہتوں کی باس
اُس شب مہہِ شوال مرے ساتھ ساتھ تھا

عرشِ بریں کی سیر سے رضواں کی عیش تک
میں خاک تھا زوال مرے ساتھ ساتھ تھا

اک نور باغ باغ مرا منتظر تھا، اور
اک درد ڈال ڈال مرے ساتھ ساتھ تھا

شب زاد تیرے شہر میں آنے سے پیشتر
وحشت کا اک وبال مرے ساتھ ساتھ تھا

میں کوہ و دشت و بن میں جسے ڈھونڈتا پھرا
وہ آئینہ مثال مرے ساتھ ساتھ تھا

وہ درد جس نے موت کا دم سرد کر دیا
زاہد وہ کتنے سال مرے ساتھ ساتھ تھا