غزل

یہ تحریر 123 مرتبہ دیکھی گئی

کسی لہجے میں گرتلخی اُگے گی
تو کیا معلوم پھر کتنی اٗگے گی

اگا ہے اب وہاں کانٹوں کا جنگل
جہاں ڈر تھا ہمیں کائی اُگے گی

زمیں کو خون سے سینچا گیا ہے
یقینا فصل اب اچھی اُگے گی

یہ جنگل کاٹ کر گھربن رہے ہیں
اسی مقتل سے پھر بستی اُگےگی

دلوں میں الجھنوں نے بار پایا
سو اب لازم یاں دوری اُگے گی