غزل

یہ تحریر 149 مرتبہ دیکھی گئی

انہیں گلہ ہے، انہیں راستے، نہیں دیے گئے
اور ہم کہ جن کو ذہن ہی کھلے نہیں دیے گئے

خوشا، یہ ہجر کی فرصت کہ اب میسر ہیں
وہ خواب بھی جو کبھی دیکھنے نہیں دیے گئے

جدا نہیں ہیں، بہم بھی نہیں تو پھر کیا ہیں
ہمارے دل کہ جنہیں ولولے نہیں دیے گئے

وہ اک جواب کی تہذیب تھی کہ جس نے ہمیں
کئی سوال تھے پر پوچھنے نہیں دیے گئے

انہیں بتاو کہ زنجیر ٹوٹ جائے گی
جنوں کو پیر اگر کھولنے نہیں دیے گئے

کتابِ زیست کھلی ہے پہ اس میں لکھنے کو
قلم دوات کسی ذوق سے نہیں دیے گئے

خراج خواب یہی تھا؟ بسا اے خاموشی
ہمیں سوال تلک پوچھنے نہیں دیے گئے

مرے نصیب کی بارش چلو تھی رستے میں
مگر جو کھیت مجھے جوتنے نہیں دیے گئے؟