غزل

یہ تحریر 121 مرتبہ دیکھی گئی

بھوک ہوتی ہے تو شب شکر میں کٹ جاتی ہے
رزق ملتا ہے تو تقسیم میں لگ جاتے ہیں

وہ تو آواز لگاتا ہے گذر جاتا ہے
شوق آواز کی تجسیم میں لگ جاتے ہیں

بے خودی میں جو قلندر کی زباں سے نکلے
بخت اُس حرف کی تکریم میں لگ جاتے ہیں

شعر احساس کی خوشبو میں بسا ہو، چاہے
لوگ الفاظ کی تفہیم میں لگ جاتے ہیں