بھوک ہوتی ہے تو شب شکر میں کٹ جاتی ہے
رزق ملتا ہے تو تقسیم میں لگ جاتے ہیں
وہ تو آواز لگاتا ہے گذر جاتا ہے
شوق آواز کی تجسیم میں لگ جاتے ہیں
بے خودی میں جو قلندر کی زباں سے نکلے
بخت اُس حرف کی تکریم میں لگ جاتے ہیں
شعر احساس کی خوشبو میں بسا ہو، چاہے
لوگ الفاظ کی تفہیم میں لگ جاتے ہیں