غزل

یہ تحریر 291 مرتبہ دیکھی گئی

آنکھ سے خواب کا مَنظَر نہ اُترتا چلا جائے
راہرو ہے کہ ہر اِک گام پہ ڈرتا چلا جائے

چاکِ دِل ہے کہ نہ بڑھتا ہے نہ بھر پاتا ہے
زہرِ غم ہے کہ دلِ چاک میں بھرتا چلا جائے

میری آواز نہ کھو جائے زمانوں میں کہیں
تیرا چہرہ پسِ مِضراب بِکھرتا چلا جائے

اُس کی آوارگیئ کوَن و مکاں لا محدوُد
جو مُسافِر حدِ امکاں سے گزُرتا چلا جائے

اور اپنا کوئی ہو بھی تو کہاں روک سکے
دِل وہ خود سر کہ ہَر اِک رہ سے گُزرتا چلا جائے