غزل

یہ تحریر 191 مرتبہ دیکھی گئی

رایگاں جاتے ہیں ہم قریہء ویران کے بیچ
خاک اُڑتی ہے ہماری کِسی میدان کے بیچ

تیری خُو بُو سے کیے ہم نے زمانے پَس و پیش
غیر اُلجھا ہے تِری زُلفِ پریشان کے بیچ

سر اُٹھائے گی نہ پھر خواہشِ سرتاب کوئی
ایسا پتھر ہے کفِ دستِ پشیمان کے بیچ

حسرتِ چشم جہَاں بِیں تِرا حاصِل معلوم
ایک آنسوُ ہے فقط دیدہء حیران کے بیچ

یوُں ہی رقصاں تو نہیں ہُوں کہ مِری حالتِ خُوب
جانتا ہُوں کہ بدل جائے گی اِک آن کے بیچ

ہو ٰخجالت نہ کِسی کو سرِ وِیرانہء طُور
آگ اَپنی بھی لیے جاتے ہیں سامان کے بیچ