غزل

یہ تحریر 1136 مرتبہ دیکھی گئی

آئینے پر نگاہ بہت، آنکھ نم بہت
سر میں سفید بال بہت، دل میں غم بہت

آہستہ ہم سے ملیے کہ رکھتے ہیں ہم بہت
دل میں گُریز اور طبیعت میں رم بہت

اے دل کہاں پناہ، غمِ عشق کے سوا
یہ غم اگر نہ ہو تو غمِ بیش و کم بہت

ہاں گاہ گاہ ذائقہء انگبیں بھی ہے
ورنہ بھرا ہے ساغرِ ہستی میں سَم بہت

آخر کو آستاں پہ ترے سر نگوں ہوا
دل نے بغاوتوں کے اُٹھائے علم بہت