O مدتوں سے نہ شکایت نہ حکایت نہ طلب میں بھی خاموش رہا، وقت بھی ...
O یہ فیض اک شباہتِ قامت کا ہے کہ سرو بے سایہ، بے ثمر ہے، ...
O خاک اُڑتی ہے تو پھر لوٹ کے آتی ہے کہاں دیکھیے اب مجھے تقدیر ...
O اِس بستی میں ہم کو بھی دو دن پتّھر ڈھونے ہیں قرض ہے کتنا ...
O تابشِ صبحِ وطن میں بھی مجھے یاد ہے تو اے غریب الوطنی، کیا مری ...
O بچھڑ گئے تھے وہ جس جھکتے آفتاب کے ساتھ وہ آج تک مرے دل ...
O ہم خاک کے ذرّوں کو بُھگتنی ہے سزا سیلاب کی گر نہیں، بگولوں کی ...
O خود اپنے ذہن کی وسعت میں یوں فنا ہو جاؤں فسونِ گردشِ ایّام سے ...
کس نے مُجھے مُجھی سے ہم آواز کر دیا لا کر سخن میں فاش مرا ...
پھر سوزِ نہاں اپنا، لفظوں میں سجا دیکھوں بہتے ہوے سونے کو مٹّی میں ملا ...