غزل

یہ تحریر 210 مرتبہ دیکھی گئی

O

یہ فیض اک شباہتِ قامت کا ہے کہ سرو
بے سایہ، بے ثمر ہے، مگر ہے بہت عزیز

دیکھیں تو کس طرح،جو نہ دیکھیں تو کس طرح
منظر لہو میں غرق، نظر ہے بہت عزیز

قصّہ یہ مختصر مرے سارے دُکھوں کا ہے
صر صر پہ بس نہیں، گُلِ تر ہے بہت عزیز

اِس معرکے میں کوئی کہیں سربکف نہیں
اس بار سرکشوں کو بھی سر ہے بہت عزیز