غزل

یہ تحریر 2017 مرتبہ دیکھی گئی

دِل ہو تھکن سے چُور، سہارا کہیں نہ ہو
بھٹکیں تو دُور دُور اِشارہ کہیں نہ ہو
رُوئے زمیں پہ ہو نہ شبوں کو کوئی چراغ
دستِ فلک پہ کوئی ستارہ کہیں نہ ہو
کُھلتا نہ ہو کہ کس نے بُلایا ہمیں یہاں
بس انجمن ہو، انجمن آرا کہیں نہ ہو
وُسعت بھی ایک چیز ہے، یہ بھی بُری نہیں
لیکن نہ اِس قدر کہ کنارہ کہیں نہ ہو
چشمک سی برق کی ہے گزرتا ہوا خیال
اِک بار ہر کہیں ہو، دوبارہ کہیں نہ ہو
اب تم کہیں ملو تو کریں مِل کے اُس کو یاد
جو وقت ہم نے ساتھ گزارا کہیں نہ ہو
خورشید میرے دل کو سُنا اپنا دردِ دل
تُو نے اگر یہ بوجھ اُتارا کہیں نہ ہو