غزل

یہ تحریر 706 مرتبہ دیکھی گئی

O

غمِ زمانہ سہو، جورِ مہرباں کی طرح
یہ سُود وہ ہے کہ لگتا ہے جو زیاں کی طرح

کبھی جو ترکِ وفا کا خیال گزرا ہے
نگاہِ دوست اُٹھی تیغِ بے اماں کی طرح

وہ یاد، دل میں جو رہتی تھی زخم کے مانند
وہ یاد، آج بھی ہے زخم کے نشاں کی طرح

ترے فراق میں کاٹے ہیں کس طرح مت پوچھ
یہ چند روز کہ تھے عُمرِ جاوداں کی طرح

تری گلی کے تصوّر میں ڈوب کر اکثر
ہم اپنے گھر میں اُترتے ہیں میہماں کی طرح

جُھکے تو خاک نشیں ہو گئے مثالِ اُفق
بہت بلند ہوے تھے ہم آسماں کی طرح

تمھارے بعد نہ دیکھی کہیں وہ برقِ ادا
کہ شاخِ دل پہ پڑے طرحِ آشیاں کی طرح

کہاں ہے تُو کہ پھر اک بار کاروانِ بہار
گزر رہا ہے مری عمرِ رائگاں کی طرح