عالمی یوم کتاب

یہ تحریر 326 مرتبہ دیکھی گئی

میں نے ہمیشہ تصور کیاہے کہ جنت ایک قسم کی لائبریری ہوگی۔بورخیس
لوگ لائبریری میں اپنی جان گنواسکتے ہیں۔انہیں خبرودارکیا جانا چاہیے۔ساؤل بیلو
عالمی یوم کتاب کے موقع پر میری نگاہ اس موڈل مکتب پر مرکوز ہے جہاں مجھے ابتدائی کتابیں پڑھائی گئی تھیں۔یہ چھوٹاسااسکول ہے جو گھر سے متصل ہے۔ جس نے مستقبل کی راہیں روشن کی تھیں۔اُن دنوں اسکول کی عمارت اتنی بڑی دیواروں کے درمیان گھری ہوئی نہیں تھی۔چار چھوٹے کمروں پر مشتمل یہ مکتب کتنا بڑامعلوم ہوتاتھا۔اب دیواروں نے اسے ہر طرف سے گھیرلیاہے۔میری نگاہ ان چار کمروں کی عمارت کو آج بھی تلاش کررہی ہے جہاں سے آس پاس کی عمارتیں بھی نظرآتی تھیں اور لوگ بھی۔ان دنوں عالمی یوم کتاب کے بارے میں کون سوچ سکتاتھا اور یہ بات بھی حاشیہئ خیال میں نہ تھی کہ گھر کے باہری حصے کو ایک چھوٹی سی لائبریری کے لیے مخصوص کر دیاجائے گا۔ یہ لائبریری میری والدہ کے نام سے موسوم ہے۔موڈل مکتب اور یہ چھوٹی سی لائبریری دونوں کے درمیان کچھ زمانی فاصلہ ہے مگر مجھے آج محسوس ہوتاہے کہ مکتب کی آوازیں نکل نکل کر اسی طرف کو آرہی تھیں۔انہیں بالآخر لائبریری کی تشکیل وتعمیر میں تاریخی کردار اداکرناتھا۔ کیامیں یہ کہہ سکتاہوں کہ یہ کتابیں در اصل مکتب کے بچوں کی زبانوں سے نکلنے والی آوازوں کی صورتیں ہیں۔یہ کتنا دلچسپ تجربہ اور خیال ہے۔مجھے یہ خیال آج سے پہلے نہیں آسکتاتھا۔میں اپنی آواز کو ان کتابوں میں کہاں تلاش کروں۔آوازیں جوفضامیں کھوجاتی ہیں انہیں کہیں تو پناہ گاہ مل جاتی ہوگی۔بڑے شہراور بڑی جگہ کی لائبریری سے تھوڑی یازیادہ آشنائی قاری کو کتنابڑابنادیتی ہے مگر ہم گھوم پھر کر اپنی کتابوں کی دنیا میں آجاتے ہیں۔ یہ دنیابعض اوقات بہت بڑی معلوم ہوتی ہے۔در اصل ایک قاری کے لیے کتاب اسی صورت میں اہم ہوتی ہے کہ وہ اپنے طور پر کون سی دنیاقاری کے لیے روشن کرسکی ہے۔جب کتابیں کم تھیں مطالعے کی رفتار زیادہ تھی اور اب کتابیں زیادہ ہیں تو مطالعے کی رفتار سست ہوگئی ہے۔کیاعجب کہ جسے ہم مطالعے کی رفتار کاسست ہو جاناکہتے ہیں وہ تیز رفتاری کی تمہید ہو۔مطالعے کی رفتار ذہن کو کبھی کبھی اتناپریشان کردیتی ہے کہ ٹھہر کر سوچنے کاموقع نہیں ملتا۔ذہن جب ٹھہر کر سوچنے لگے تو اس وقت سے خبر دار رہناچاہیے۔ذہن اور کتاب ہمیشہ اپنی اپنی شرطوں پر اصرار کرتے ہیں،لڑتے جھگڑتے بھی ہیں۔اس عمل میں مفاہمت کی راہ نکل آتی ہے۔مفاہمت ایک کی جیت اور دوسرے کی ہار نہیں ہے۔یہ زندگی اور ادب کاایک رویہ بھی ہے۔کچھ نہ کچھ اپنی جگہ سے کھسکناپڑتاہے۔عالمی یوم کتاب میرے لیے آج بھی موڈل مکتب ہے اور وہ چھوٹی سی لائبریری جو والدہ کی یاد میں یہاں میں نے قائم کی ہے۔مقامی لائبریری کی طرح کتابیں بھی تو مقامی ہوتی ہوگی۔یاانہیں وقت مقامی بنا دیتاہوگا۔اورحان پامکھ کاایک قول ہے کہ میں نے ایک کتاب پڑھی اور میری دنیابدل گئی۔کتاب جب کسی کو تبدیل کردیتی ہے تو اس کی ایک مقامیت ہے جو تبدیل ہونے والے شخص کے ساتھ جاگ جاتی ہے۔کوئی ایک کتاب زندگی کاعنوان بن جاتی ہے۔تاریخ کے کسی دوراہے پر کتاب کے لیے بھی مشکل پیداہوجاتی ہے کہ وہ کس طرح اور کن خطوط پر ذہن کو تبدیل کرے۔وقفے وقفے سے کتابیں قاری کی زندگی میں آتی ہیں۔کبھی ایک ساتھ آجاتی ہیں۔جب کتابیں ایک ساتھ آجاتی ہیں تویہ تمیز مشکل ہو جاتی ہے کہ کس کتاب نے کتناتبدیل کیا۔کتابیں ٹیبل کے ساتھ ساتھ ذہن کے ٹیبل میں بھی اوپر تلے رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔کبھی ذہن کچھ زیادہ سوچنے لگتاہے کبھی دل ڈوبنے لگتاہے،کبھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔شمیم حنفی نے کہاتھا۔
کتاب پڑھتے رہے اور اداس ہوتے رہے
وہ کون شخص تھا جس کے عذاب ڈھوتے رہے
تو کتاب چاہے جس موضوع سے متعلق ہو وہ اگر ذاتی واردات اور ذاتی تجربہ نہیں بنتی تو ایک مشکل پیداہوجاتی ہے۔میں نے آج کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔اچانک موڈل مکتب کاخیال عالمی یوم کتاب کے ساتھ آگیا۔اور ایک چھوٹی سی لائبریری کے درمیان آکر بیٹھ رہا۔مقامیت کی زنجیرتوڑنے کی کوشش بھی کتنی مضحکہ خیز بن جاتی ہے۔ایک حساس قاری کے لیے ہر اچھی کتاب مقامی اور ذاتی ہوتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ کتاب صدیوں کی انسانی اور تہذیبی اقدار کابوجھ اٹھاکر قاری کو بین الاقوامی بنادیتی ہے۔اس حقیقت کے باوجود قاری بین الاقوامیت کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی اورحان پامکھ کی طرح اباکاسوٹکیس کے ساتھ ہوتاہے۔یہ بھی توایک مقامیت تھی کہ نوبیل پرائز لیتے وقت اورحان پامکھ کو اباکاسوٹکیس یاد آیاتھا۔آج موڈل مکتب میں عید کی چھٹی تھی۔بچوں کے پڑھنے کی آوازیں نہیں آئیں۔ایک پرندے کی آواز آئی اور وہ عید ملن کے شور میں دب سی گئی۔پرندوں نے اپنی خاموشی کے ساتھ عید کااستقبال کیا۔کبھی پرندے موڈل مکتب سے ہوتے ہوئے لائبریری تک آجاتے تھے۔ایک نوجوان عید ملن کا نغمہ گارہاتھا۔اس کی آواز میں ایک جادوساتھا۔سناکہ وہ سحری کے وقت بھی لوگوں کو جگایاکرتاہے۔ایک قافلہ ہے جو یہاں مختلف زمانوں کو عبور کرتاہوا یہاں تک پہنچاہے۔نوجوان کی آواز میں پرندے کی آواز شامل ہوگئی تھی۔بھیاکچھ عیدی دے دیجیے۔آپ تو پروفیسر ہیں میراتلفظ ٹھیک ہے؟۔مجھے اس نوجوان کی باتوں پر کوئی حیرانی نہیں تھی۔اسے عیدی تو لینی تھی مگر اسے سب سے زیادہ فکر تلفظ کی تھی۔یوں بھی یہاں تلفظ نے کتنے ہنگامے برپاکیے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جیسے تلفظ ہی فکر بھی ہو اور خیال بھی۔عالمی یوم کتاب کاتصور عالم کاری کے بغیر ممکن نہیں لیکن جب کتابیں اپنی زبان وتہذیب سے نکل کسی اور لسانی اور تہذیبی علاقے میں داخل ہو جاتی ہیں تو انہیں کچھ اور وسعت مل جاتی ہے۔jean rhysنے کیااچھی بات کہی تھی کہ ’پڑھناہم سب کو تارک وطن بناتاہے،یہ ہمیں گھر سے دور لے جاتاہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہمارے لیے ہر جگہ گھر تلاش کرتاہے۔‘ یہ بے گھر ی قاری ہی کی نہیں بلکہ مصنف کی بھی ہے۔ایک کتاب ہر شخص کے لیے ایک جیساتجربہ نہیں بنتی مگر وہ کسی باشعور حساس قاری کو فوری طور رپر اپنی گرفت میں ضرور لے لیتی ہے۔اگر گرفت ڈھیلی نہ ہو توایک معنی میں قاری فکری طورپر رک ساجاتاہے اوروہ مختلف رجحانات اور میلانات سے خوف کھانے لگتاہے۔مطالعے کاعمل اگر قاری کے لیے گھر کامتلاشی ہوناہے تواسی میں قرأت کی خوبصورتی کاراز پوشیدہ ہے۔کتاب کاعالمی دن عالمی بننے کی ترغیب بھی دیتاہوگا۔عالمی بننا کتنا مشکل مرحلہ ہے۔ تمام عمر کی کوشش کے باوجود ’عالمی‘کاکوئی حصہ بلکہ قلیل حصہ بھی مقدر نہیں بن پاتا۔کچھ بنتے بنتے بگڑ جاتاہے۔کچھ دکھاوے کی نظرہو جاتاہے۔کچھ انتقام کے جذبے کی بھینٹ چڑھ جاتاہے۔میں نے عالمی بنتے ہوئے بھی لوگوں کودیکھاہے اور وہ مقامی بھی نہیں بن سکے۔کتاب کی قرأت ہماری بصیرتوں میں اگر اضافہ کرتی ہے تو اس کے لئے اول و آخر ہمیں قاری بنناپڑتاہے اور یہ قاری بنیادی طورپر مقامی ہی ہوتاہے۔بورخیس نے جنت کو لائبریری کی ایک قسم کے طور پر دیکھاتھا۔یہ لائبریری جتنی عملی اورحقیقی ہے اس سے کہیں زیادہ تصوراتی بننے لگتی ہے۔امی کی یاد میں اپنی چھوٹی سی لائبریری کو بناتے ہوئے چند برس پہلے بھی بورخیس کی اس لائبریری کاخیال آیاتھااور وہ کہانی میں نے اس لائبریری کی ایک کتاب میں رکھ دی ہے۔جہاں تک لائبریر ی میں جان گنوانے کی بات ہے اس کی بھی ایک روشن تاریخ رہی ہے۔باقر مہدی سے متعلق وارث علوی کی ایک بات یاد آتی ہے جو شخص پڑھتانہیں اس سے کیابات کریں۔
وطن کی ایک شام
23/04/2023