سون ندی کا پانی تھا کتنا شفاف
غالب نے اسے سوہن سمجھا تھا
یا سچ مچ وہ سوہن ہی تھا
سوہن کا حلوہ بھی تھا
غالب نے کچھ اور کہا تھا
سوہن کا املا بھی وہی تھا
سون کو سوہن تک آنے میں
کتنا عرصہ بیت گیا تھا
سون کی اٹھلاتی لہروں نے
جانے کیا غالب سے کہا تھا
بیدل کا کوئی شعر پڑھا تھا
بیدل کے شعروں کی لہریں
سون ندی میں خوابیدہ تھیں
انہیں پتہ تھا ایک ہے غالب
جو گزرے گا کبھی ادھر سے
جس کے لیے بیدل آیا تھا
سون ندی بیدل کی تھی
رخ اس کا دہلی کی طرف تھا
غالب کی منزل کلکتہ تھی
ایک یگانہ بھی آئے گا
جو سوہن کی تحقیق کرے گا
سون ندی کا پانی پی کر
رخ اس کا لکھنو کا ہوگا
غالب شکن وہ کہلائے گا
سون ندی نے کب سوچا تھا
سینے پر اس کے ریل چلے گی
سینہ اس کا چاک بھی ہوگا
ریل کی سیٹی کل جو بجی تھی
سون ندی کی لہر چھپی تھی
سرور الہدی
29/12/2023
سون ندی کی لہر چھپی تھی
یہ تحریر 113 مرتبہ دیکھی گئی