سون ندی کی لہر چھپی تھی

یہ تحریر 113 مرتبہ دیکھی گئی

سون ندی کا پانی تھا کتنا شفاف
غالب نے اسے سوہن سمجھا تھا
یا سچ مچ وہ سوہن ہی تھا
سوہن کا حلوہ بھی تھا
غالب نے کچھ اور کہا تھا
سوہن کا املا بھی وہی تھا
سون کو سوہن تک آنے میں
کتنا عرصہ بیت گیا تھا
سون کی اٹھلاتی لہروں نے
جانے کیا غالب سے کہا تھا
بیدل کا کوئی شعر پڑھا تھا
بیدل کے شعروں کی لہریں
سون ندی میں خوابیدہ تھیں
انہیں پتہ تھا ایک ہے غالب
جو گزرے گا کبھی ادھر سے
جس کے لیے بیدل آیا تھا
سون ندی بیدل کی تھی
رخ اس کا دہلی کی طرف تھا
غالب کی منزل کلکتہ تھی
ایک یگانہ بھی آئے گا
جو سوہن کی تحقیق کرے گا
سون ندی کا پانی پی کر
رخ اس کا لکھنو کا ہوگا
غالب شکن وہ کہلائے گا
سون ندی نے کب سوچا تھا
سینے پر اس کے ریل چلے گی
سینہ اس کا چاک بھی ہوگا
ریل کی سیٹی کل جو بجی تھی
سون ندی کی لہر چھپی تھی
سرور الہدی
29/12/2023