سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں

یہ تحریر 177 مرتبہ دیکھی گئی

سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں

لکھنؤ کے سفر کا ایک اہم پڑاؤ سودا کی قبر پر حاضری بھی ہے۔کب سے سن رہا تھا کہ سودا کی قبر محفوظ ہے اور میر کی قبر کو محفوظ نہیں رکھا جا سکا۔میر اور سودا کا نام جو ایک ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کے پیچھے زمانی قربت کے ساتھ ساتھ ادبی چشمک کا بھی کچھ حصہ ہے۔میر نے سودا کے بارے میں جس خیال کا اظہار کیا اس سے چشمک کے دھوئیں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔عجیب قدرت کا نظام ہے کہ دونوں لکھنؤ آگئے اور یہیں آخری سانس لی۔میر کا مدفن زیادہ موضوع گفتگو بنا۔سودا کی قبر کا کبھی کبھی اور کہیں کہیں ذکر آتا رہا ہے۔متن کی لا مرکزیت کے ساتھ ساتھ مدفن کی لا مرکزیت بھی معنی کے عمل کو سیال بنا دیتی ہے۔مدفن کو بطور متن دیکھنا بھی کتنا دلچسپ ہے۔کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اس میں بھی مفاہیم کی دنیا پوشیدہ ہے بشرطے کہ اس کے بارے میں غور کیا جائے۔سودا کی قبر عام قبروں کی طرح برابر ہے لیکن اس مقام پر آنے والا ہر شخص اس کیفیت سے شاید دو چار نہیں ہوتا جو نشان میر کی حاضری کے وقت طاری ہوتی ہے۔ممکن ہے دونوں کیفیات میں کوئی رشتہ ہو جیسا کہ دونوں کی شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ باتیں مشترک ہیں۔مدفن کا مشترک ہونا تو ایک بڑی سچائی ہے۔تہ خاک ہونے کی سچائی ایک ہی طرح سے متاثر کرتی ہے۔فرق اتنا ہے کہ شخصیت کی روشنی میں ہم تہ خاک ہونے والی شخصیت سے ایک رشتہ محسوس کرتے ہیں۔اس رشتے کا احساس نہ اچانک پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی طرح کی سیاست کا حصہ ہوتا ہے۔جب تک تخلیقیت سے گہرا رشتہ قائم نہ ہو تہ خاک سے بھی رشتہ استوار نہیں ہو سکتا۔ایک ہی شہر میں تھوڑے فاصلے پر سودا اور میر کا ابدی نیند سونا کتنے خیالات کو راہ دیتا ہے۔سودا کے بعد نشان میر کی طرف آنا یا نشان میر سے سودا کہ مدفن کی طرف آنا بظاہر کوئی خاص بات نہیں۔یہ تجربہ تو ایک جیسا ہے۔مٹی سے مٹی تک کا یہ سفر ہے۔اور وہ مٹی جو دکھائی نہیں دیتی اس کا تصور کتنا مختلف ہے۔بالائے زمین اور زیر زمین کہتے ہیں کہ زمین تو ایک ہی ہے زمین ایک ہونے کے باوجود کیا یہ زمینیں ایک ہی طرح سے پیش آ تی ہیں۔میر اور غالب دونوں نے بالائے زمین اور زیر زمین کو اپنے اپنے طور پر دیکھا اور محسوس کیا۔سودا کا مدفن سودا کے نام کے ساتھ جس تجربے سے دوچار کرتا ہے وہ تجربہ نشان میر کے تجربے سے مختلف ہے۔ہونے اور نہ ہونے کی کشمکش ذرا فاصلے پر ہونے کا احساس اس فاصلے کو ختم ہوتا ہوا دیکھنے کی خواہش۔ان فاصلوں کے درمیان فکر و احساس کی آتی جاتی لہریں ۔کسی لہر کا سفر میں ٹھہر جانا یا تیز تر ہو جانا یہ تمام کیفیات ہونے اور نہ ہونے کے احساس کی مرہون منت ہیں ۔رفیع سودا کا نام دیکھ کر کلیات سودا اور دیوان سودا کا خیال آتا ہے۔میر کا بھی کوئی سودا تھا جو تمام عمر میر کی شاعری اور شخصیت کے ساتھ لگا رہا ۔رفیع سودا کا سودا اتنا شدید نہیں تھا جتنا کہ میر کا تھا۔کیا معلوم رفیع سودا کا سودا زمین سے زیادہ شدید ہو اور اس کی شدت شاعری میں منتقل نہ ہوئی ہو۔سودا کی دیوانگی اور سودا کی سودائی کو میر کی دیوانگی سے کتنا اور کہاں کا رشتہ ہے۔سودا کے ذہن کی تیزی اور دیوانگی میں فرزانگی کی شرکت سودا کو میر سے الگ کرتی ہے مگر اتنی نہیں جتنی کہ لوگ بتاتے ہیں۔دیوانگی تو ایک جیسی ہو سکتی ہے فرق یہ ہے کہ دیوانہ خود کو عام زندگی میں اور پھر تخلیقی سطح پر خود کو کتنا سنبھال کر رکھتا ہے۔ آہ اور واہ کی تقسیم نے دونوں کے ساتھ نا انصافی کی۔آہ میں واہ کی شرکت اور واہ میں آ ہ کی شمولیت۔اس منطق کو سمجھنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔لکھنؤ میں میر اور سودا کا ابدی سونا دہلی سے زمینی اور زمانی فاصلہ تو ہے ۔ کیا معلوم سودا کو دلی سے بچھڑنے کا کتناغم تھا۔میر نے تو کئی ایسے شعر کہے جن میں لکھنؤ سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ کاظم علی خان نے میر لکھنؤ میں کے عنوان سے مضمون لکھا۔اتفاق سے میں اس وقت غالب انسٹی ٹیوٹ میں موجود تھا جب وہ میر سمینار میں مقالہ پیش کر رہے تھے۔نثار احمد فاروقی نے میر دہلی میں کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔دونوں میں تھوڑی نو ک جھونک بھی ہوئی۔کسی نے سودا کے لیے ایسے عنوانات قائم نہیں کیے۔میر کی ادبی شخصیت سودا کے مقابلے میں زیادہ رنگا رنگ ہے۔مختلف اصناف کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ذکر میر نکات الشعراء اورفیض میر نےمیر سے مکالمے کی گنجائشیں زیادہ پیدا کردیں ۔میر کی بہت سی باتوں سے قاضی عبدالودود نے اختلاف کیا۔ایک جگہ پر ایک سلسلے میں قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ اگر یہ بات میر کے بجائے سودا نے کہی ہوتی تو میں مان لیتا۔مجھے یاد ہے کہ شمس الرحمن فاروقی نے جامعہ میں ایک جلسے کی صدارتی تقریر میں قاضی صاحب کی یہ بات دہرائی تھی۔ یہ موقع تھا چودھری محمد نعیم کے ایک لیکچر کا جو میر سے متعلق تھا۔یہ واقعہ ہے کہ میر کے ساتھ سودا کا نام سائے کی طرح لگا ہوا ہے۔میر نے زندگی میں شاید ایسا سوچا ہو کہ سودا اور وہ ایک ہی شہر میں مدفون ہوں گے اور دونوں کا نام ایک ساتھ لیا جاتا رہے گا۔کلیات میر فورٹ ولیم کالج سے شائع ہوا۔سودا کی شاعری کا انتخاب بھی فورٹ ولیم کالج سے شائع ہوا۔میر نے اپنے وقت میں صرف ڈھائی شاعر کو تسلیم کیا تھا۔اپنے علاوہ ایک سودا اور آدھے خواجہ میر درد۔کسی نے بھی سوز کا نام لیا تو اضافے میں پونے تین کہا۔یہ بھی اتفاق ہے کہ دیوان سودا میں جو الحاقی کلام ہے وہ میرسوز کا ہے۔سودا کی قبر امام باڑا آغا باقر کے احاطے میں ہے۔آ س پاس کی آبادی زندگی کی عمومیت تھوڑی خاموشی کے ساتھ اس احاطے سے لگی ہوئی ہے۔اس کی وجہ ٹریفک کا ذرا فاصلے سے گزرنا ہے۔نشان میر شور کے درمیان ہے۔شور وہاں بھی ہے جہاں میر کا اصل مدفن بتایا جاتا ہے۔فرق یہ ہے کہ ریل کی سیٹی وقفے وقفے سے آواز دیتی ہے۔سودا کا کوئی شعر شور کے حوالے سے مشہور نہیں ہوا۔میر کا شور میر کی شاعری کا دھیرے دھیرے عنوان بنتا گیا۔یہاں پہنچ کر سودا کا شعر یاد آیا ۔
سودا کی جو بالیں پہ ہوا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
یہ شور قیامت نشان میر اور سٹی ریلوے اسٹیشن کے آس پاس ہے۔یہ شعر جس آ ہنگ کے ساتھ پڑھنے کا تقاضہ کرتا ہےوہ سودا کے تخلیقی مزاج سے ہم آہنگ بھی۔میر نے کوئی اور لہجہ دریافت کر لیا۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
شاد عظیم آبادی کا شعر ہے
میری بالیں پہ وہ کس شکل سے ہیں آئے ہوئے
کچھ لجائے ہوئے،کھوئے ہوئے شرمائے ہوئے
میر اور سودا کا تقابلی مطالعہ ابھی ہونا باقی ہے۔دونوں کی ہم طرح غزلوں کا مطالعہ دلچسپ تاج تک پہنچا سکتا ہے۔کسی زمین میں سودا کی غزل میر کی سے زیادہ بہتر ہے۔اسی طرح کچھ ایسے مضامین بھی ہیں جنہیں سودا نے اپنے انداز میں پیش کرتے ہوئے یہ پیغام بھی دیا کہ زندگی اور کائنات کی سچائیاں ان کی نظر میں کتنی اہم ہیں اور ان کے اظہار میں کیوں کر سنبھلا ہوا انداز اختیار کیا جا سکتا ہے۔سنبھلے ہوئے انداز سے مراد یہ ہے کہ سودا نے شدت احساس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔میر کے یہاں احساس کی شدت وہ ابھر آتی ہے۔سودا کی ایک غزل کے دو اشعار ہماری تہذیبی زندگی میں جس طرح دخیل ہیں وہ کسی واقعے سے کم نہیں۔
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی
میرے وطن میں ایک مشاعرہ تھا جس کی طرح سودا کا مصرع۔اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی تھا۔وہ دن میرے گریجویشن کے تھے۔اس مصرع کا انتخاب ایک خاص ضرورت سے کیا گیا تھا۔لائبریری کو مزید بہتر بنانے کے لیے شاید ضلعے کے کسی بڑے عہدے دار کو بلایا گیا۔خواجہ معین الدین درد نے اس زمین میں غزل کہی اور ایک شعر کو پڑھتے ہوئے لائبریری کی طرف اشارہ کیا
کچھ کہنے کی حاجت نہیں سب پیش نظر ہے
فریاد کی تصویر ہے دیوار بھی در بھی
استاد شاعر قاضی زبیر نے خود نے صرف ایک شعر کہا تھا
تشنہ تری محفل میں ہے اک رند بلا نوش
اے ساقی مئے ریز نظر کچھ تو ادھر بھی
تو سودا کی اس غزل سے رشتے کی ایک مقامیت ہے جو آج بھی اپنی سچائی پر اصرار کرتی ہےآخری شعر دہلی میں نگاہ سے گزرا اور پہلی مرتبہ کسی کتاب کے انتساب میں دکھائی دیا۔یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ سودا کا ایک شعر دھیرے دھیرے قاری اور کے رشتے کے باعث میں مرکزی حوالہ بن گیا
سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
جےاین یو میں ایم کا آخری سیمسٹر تھا۔پروفیسر عتیق اللہ صاحب وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر تنقید کا ایک پیپر پڑھایا کرتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ پورا ایک لیکچر انہوں نے سودا کےاس شعر کی روشنی میں دیا تھا۔ان کی مرتبہ کتاب تنقید کی جمالیات میں اس شعر کا تجزیہ دیکھا جا سکتا ہے۔تو یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ سودا کے اشعار تنقیدی طریقے کار کی روشنی میں بھی دیکھے جانے لگے۔
تیری سمجھ کے آگے ناقص نہیں عبارت
گو ہم سے حرف مطلب لکھنے میں رہ گیا ہے
یہ شعر جب پہلی مرتبہ نظر سے گزرا تو فطری طور پر ذہن متن اور قاری کے رشتے کی طرف منتقل ہو گیا۔امروز علی گڑھ میں یہ مضمون اسی عنوان کے ساتھ شائع ہوا۔
گو ہم سے حرف مطلب لکھنے میں رہ گیا ہے
چند اور اس طرح کے اشعار ہیں جو انہی خطوط پر غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
لکھنؤ میں سودا کی قبر پر حاضری نے مطالعہ سودا کی روایت کو تازہ کر دیا۔شیخ چاند اور خلیق انجم کی کتاب یاد آئی۔سودا کی غزل کا ایک انتخاب قاضی افضال حسین نے بھی کیا ہے جو صاحب اکیڈمی سے شائع ہوا۔شارب ردولوی نے بھی سودا کا انتخاب کیا جو دہلی اردو اکیڈمی سے چھپا ہے۔افکار سودا کے عنوان سے ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔میرے مطالعے میں محمد حسن کا مرتب کردہ کلیات سودا ہے جو نسخے جانسن پر مبنی ہے۔یہ نسخہ خود سودا نے جانسن کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔خورشید اسلام نے بھی کلام سودا کا انتخاب کیا۔ایک انتخاب رشید حسن خان کا بھی ہے۔جس میں انہوں نے محمد حسن کا شکریہ ادا کیا ہے کہ نسخہ جانسن سے انہیں استفادہ کا موقع ملا۔محمد حسن نے جو کلیات سودا مرتب کیا ہے اس میں بہت سی کوتاہیاں راہ پا گئی ہیں جن کا تعلق پرانے املے سے ہے۔دوبارہ اس کی اشاعت عمل میں نہیں ائی اور نہ انہیں اس کی تصحیح کا موقع ملا۔میں نے اپنے طور پر دوسرے نسخوں سے اسے ملا کر دیکھ لیا ہے ۔ممکن ہے اس کی اشاعت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔لیکن محمد حسن کا جو دیباچہ ہے وہ اتنا فکر انگیز ہے کہ پھر کوئی ایسا سودا کا محاکمہ نہیں کر سکا ۔نسخے کی کیفیت سودا کی شخصیت کلام سودا کی معنویت اور کلام سودا کو زمانی اور تاریخی اعتبار سے دیکھنے کی کوشش۔
12/01/2024