زیر اشاعت ناول کا ایک ورق

یہ تحریر 175 مرتبہ دیکھی گئی

بڑے میاں کے باورچی خانے میں کبھی سفید پیاز نہیں دیکھاگیا۔سفید پیاز کاباورچی خانے میں جانااس کادھواں دھواں ہو جانا تھا۔سفید پیازکتناآنسو لاسکتاہے اس کااندازہ بہت کم تھا۔اور ان دنوں آنکھ میں آسانی سے پانی بھی کہاں آتاتھا۔پیاز کے چھلکوں کو اتارنااس وقت تو ایک کھیل کی طرح تھا۔اگر یہ کھیل آنکھوں میں آنسو لاتاہے تو یہ عمل اس گھر کی اخلاقی زندگی سے بہت نزدیک تھا۔جن لوگوں نے پیاز کے چھلکے کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا ہے و ہ اسے محض بچوں کھیل نہیں سمجھ سکتے۔یہ تو زندگی کاایک فلسفہ اور زندگی کی ایک سچائی ہے جو ذرادیر میں اپنی مانوس سچائی کالبادہ اتار کر دوسری سب سے بڑی حقیقت کااعلان کرتی ہے۔بڑے میاں نے شیکسپیئر کایہ قول دہرایاتھا۔’میری آنکھوں سے پیاز کی خوشبوآتی ہے میں روؤں گا۔‘میرے بچپن کاشعور اس قول کو سمجھنے اور محسوس کرنے سے قاصر تھا۔آنکھوں میں پانی تو ضرور دیکھاتھامگر آنسو اور پانی میں فرق کرنے کاسلیقہ اور حوصلہ اس وقت بھی نہیں تھااور آج بھی نہیں ہے۔پیاز کی خوشبو اس کی جھانس ہے جسے ہمیشہ آنکھوں کے لیے تکلیف دہ سمجھاگیا۔ اسے خوشبوکون کہہ سکتاہے مگر وہ ہے تو خوشبو جو بہت سی خوشبوؤں سے مختلف ہے۔یہ وہ خوشبو ہے جو آنسوؤں کے خوابیدہ سمندر کو جگادیتی ہے۔بڑے میاں کو شاید کسی نے روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ان کے لیے پیاز کی خوشبوکتے ہوئے کٹے ہوئے پیاز کی خوشبو ہے جو لو سے بچانے کاوسیلہ تھی۔توپیاز کااگر کوئی تہذیبی تصور ہو سکتاہے تو وہ سالم پیاز ہی ہو سکتاہے۔کٹے ہوئے پیازکو تہذیبی قرار دینا ایک معنی میں اس کی توہین ہے۔پھر اسے باورچی خانے لے جاناہوگا۔بڑے میاں کو پیاز کے روشن اورتاریک پہلوؤن سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔وہ تو اس کی داخلی ساخت کے تئیں حساس تھے اور پیاز کے سلسلے میں مفکرین کی آرا انہیں متاثر کرتی تھیں۔بڑے میاں کی نگاہ میں پیاز کی خوشبو او ر اس کی جھانس سب سے بڑی ساخت تھی۔انہوں نے دل راجرزکایہ قول بھی دہرایاتھاکہ پیاز لوگوں کو رلاسکتاہے لیکن کوئی سبزی ایسی نہیں ہے جو لوگوں کوہنساسکے۔
اس تجربے نے معنی کی طرف کچھ مبہم اشارے کئے تھے لیکن اس وقت تو معنی سے زیادہ چھلکوں کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا اچھا لگا تھا۔ بڑے میاں نے کہا تھا کہ سفید پیاز کی پرتوں کو ادھیڑتے ہوئے آنکھوں میں کوئی جھانس نہیں آتی۔ دوسرے پیاز سے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں بار بار آنکھوں کو مَلنا پڑتا ہے۔

13/12/2022