جاوید شاہین کی شاعری

یہ تحریر 2412 مرتبہ دیکھی گئی

کسی نے کہا ہے کہ اپنی ذات کا مرکز تلاش کرنے کے لیے ولیِ کامل، شرکی دُنیا کو نیست و نابود کرتا ہے اور شاعر نام نہاد خیر کی دُنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے پر تُل جاتا ہے۔ اس توڑ پھوڑ کے بعد ہی مجاز میں دراڑیں پڑتی ہیں اور حقیقت کی تھوڑی بہت روشنی چھن چھن کر دل و دماغ کو اُجالنے لگتی ہے۔ جاوید شاہین بھی ایک مُدّت سے توڑ پھوڑ میں لگا ہُوا ہے اور اس نے بالآخر یہ راز پا لیا ہے کہ غزل کو ہتھیار کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس قدیم صنف کی ظاہری ملائمت میں ایسی صلابت پنہاں ہے کہ اس کی نوک، خم کھائے بغیر، عہدِ حاضر کے حقائق کے دل کو چیر سکتی ہے۔ اب وہ نہتا نہیں ہے۔ اس کی نئی غزلوں میں مزاج اور احساس کی ایک پُرجوش وحدت موجود ہے اس وحدت نے ان غزلوں کو الگ الگ اور ایک دوسرے سے بے نیاز تخلیقی کاوشوں کے بجائے جلتے، سُلگتے اور بُجھتے رنگوں کی ایک صف بنا دیا ہے۔ یہ سربسر صفِ ماتم تو نہیں اور شاعر کی آواز کی حرارت اس کی واضح نفی ہے۔ تاہم اس منظر میں، جو بہرحال ہمارا ظاہر و باطن ہے، بہت کچھ اندھیرا، بیمار اور نامراد نظر آتا ہے، خساروں سے داغدار ہے اور درمیان سے ٹُوٹی ہوئی چیزوں سے اٹا پڑا ہے۔ جاوید شاہین نے اس منظر میں رنگ بھرنے میں مصوّرانہ اپج کا ثبوت دیا ہے اور کم از کم دو رنگ، زرد اور سیاہ، مکرر علامتوں کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ان رنگوں میں ڈر، سوگواری، پژمردگی اور کم خوفی کا جوتاثر شامل ہے وہ پُر زور انداز سے سامنے آیا ہے۔ یہ غزلیں ہمارے خساروں کا حساب کتاب ہیں اور ان میں بہت سی چیزیں بیمار نظر آتی ہیں۔ گفتگو بیمار ہے، لفظ بیمار ہیں اور حد یہ کہ روشنی بھی بیمار ہے۔ ایک عظیم، بے سمت اضمحلال ہے جس میں اپنے ہونے کے ثبوت کے لیے خواہ مخواہ بولتے رہنا، نیند کے اندر جاگتے رہنا پڑتا ہے۔ گویا کسی خوف کو تھکانے اور ہرانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ غزلوں میں نمو کی جو شان ہے اور مِل جُل کر اُگنے کی جو کیفیت ہے، وہ اس مجموعے کی نظموں میں نہیں اور شاید ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ یہ نظمیں کہیں فردِ جُرم بن گئی ہیں اور کہیں بے بضاعتی کا اعتراف۔ پشیمانی اور اعتذار کے سائے بھی ان سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ اکثر جگہ شعریت، بیانیہ کے تقاضے اور ڈرامائی عنصر آپس میں دست و گریباں ہیں اور اس کشمکش سے پیدا ہونے والا تناؤنظموں کو سہارا دینے میں کامیاب ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ نظمیں خطیبانہ شور و غوغا سے تقریباً پاک ہیں اور انصاف دشمن معاشرے کی ہولناکیوں کا ذکر شاعر نے بالکل فطری لہجے میں کیا ہے۔ اس طرح یہ ہولناکیاں قدرے مانوس نظر آنے لگی ہیں۔ اور بھی زیادہ ڈراؤنی بات ہے۔ غالباً شاعر بتانا بھی یہی چاہتاہے۔