تخیل اورتخلیق

یہ تحریر 2202 مرتبہ دیکھی گئی

انسانی تخیل کا خاصہ ہے کہ اس میں ہر شے گڈمڈ رہتی ہے، ایک دوسرے کے ظرف میں شریک ہوتی آئی ہے۔ ماضی، حال، مستقبل، زندگی اور موت، نفرت، محبت، بہادری، بزدلی، بیماری، شفایابی، حقیقت، خواب، ارضی اور غیرارضی لذتیں۔ گو حقائق کی سطح پر یا جسے ہم حقائق کی سطح سمجھتے ہیں، اشیا کو الگ الگ پہچاننا شاید ممکن ہے لیکن کون جانتا ہے کہ جس چیز کو ہم نے پہنچانا ہے وہ وہی ہے جو ہم سمجھے ہیں۔ پیدا ہوتے ہی ہم دنیا میں شریک ہو جاتے ہیں۔

اگر انسانی تخیل میں اشیا اور خیال اور یادیں اسی طرح گڈمڈ رہتی ہیں تو پھر اس کا حاصل کیا ہے؟ یہ گنجان بار آوری کا منظر تو الجھن کے سوا کچھ نہ نکلا۔ خواب بھی تو اسی تخیل کا عکس ہیں۔ ان کی اپنی منطق، اپنا حسن، اپنی دہشت ہوتی ہے۔ خواب میں ہم جس طرح مقید اور بے اختیار ہوتے ہیں اس طرح کبھی عالمِ بیداری میں نہیں ہو سکتے اور خواب ہی میں ہم جس طرح آزاد اور بے اختیار ہوتے ہیں اس طرح عالمِ بیداری میں نہیں ہو سکتے۔

تخلیقی سطح پر کچھ کر گزرنا دراصل اسی تخیل سے باہر آنا ہے۔ ہر تخلیق زوالِ آدمِ خاکی یا جنت چھن جانے کی حکایت کی تکرار ہے۔ یہ ان ہونی سی بات نظر آتی ہے کہ آدمی تخیل سے باہر آ کر کچھ خلق کرنے کے قابل ہو۔ تخیل کی معموری آدمی کو اپنے اندر گم اور جذب کر لیتی ہے۔ اس لیے باہر نکل آنا ہی رہائی کی واحد صورت ہے۔ باہر آتے وقت تخیل کی بعض صورتیں، رنگ، آوازیں، جو آپ کو پتا چلے بغیر، آپ سے مانوس ہو چکی ہوتی ہیں، ہل چکی ہوتی ہیں، آپ کے ساتھ ساتھ باہر آ جاتی ہیں۔ جب آدمی تخیل سے باہر نکل کر، مڑ کر، دیکھتا ہے توان صورتوں، رنگوں، آوازوں کو پیچھے پیچھے آتے دیکھ کر بیک وقت خوش اور حیران اور نئے سرے سے متعارف ہوتا ہے۔ اب وہ تخیل کے گنجان بطن سے نکل کر کھلی جگہ میں، ان وابستہ چیزوں سے، تخیل کے بالمقابل ایک نیا تخیل آباد کر سکتا ہے۔

پھر تو تخیل سے آزادی محدود ثابت ہوئی۔ بہت کچھ جاتا رہا، ذرا سا ہاتھ آیا۔ دیکھنے کی بات ایک تو یہی ہے کہ وہی کچھ ہاتھ آیا جسے ہم سے مناسبت تھی۔ مگر نہیں۔ فن کار جب باہر آتا ہے تو اگر اس میں صلاحیت اور ہمت ہو تو اس سلسلے کو لامتناہی بنا سکتا ہے۔ فن کار ساتھ آئی ہوئی مانوس صورتوں، رنگوں اور آوازوں کو نئے طور پر سجانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ محویت کے کسی عالم میں خود وہی صورتیں، رنگ اور آوازیں بن جاتا ہے اور پھر وہ دیکھتا ہے کہ اور بھی بہت سی صورتیں، رنگ اور آوازیں ہیں جو ان مانوس صورتوں، رنگوں اور آوازوں سے ہلی ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے چلی آ رہی ہیں۔ انھیں دیکھنا اور سننا تبھی ممکن ہے کہ آدمی خود کو کسی صورت یا رنگ یا آواز میں ملا یا مٹا دے اور پھر اسی صورت یا رنگ یا آواز سے مانوس کسی اور صورت یا رنگ اور آواز میں اور پھر کسی اور میں۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا اور تخیل کی فراوانی کسی منظوم وصال اور ہم دمی کی طرح دور تک پھیلتی جاتی ہے۔