برہنہ پائی کی نظم!

یہ تحریر 433 مرتبہ دیکھی گئی

‎اب کی بار وہ جدا کیا ہوا
‎جاڑے کا موسم آتے ہی
‎میرے ہینڈز فری ٹوٹ گئے
‎میرا چشمہِ سیاہ سمندر کی لہروں میں کہیں کھو گیا
‎اور میرے جوتے پھٹ گئے
‎ہینڈز فری کو میں نے سلوشن ٹیپ سے جوڑ لیا
‎اور دوسری جانب سے آواز نہ آنے کے خطرے کو
‎آئندہ کے لیے مول لیا
‎چشمہ تو خیر کسی انجان ساحل پر سیپیوں کے معصوم دلوں میں
‎ہجر کا خوفِ سیاہ جگاتا ہو گا
‎(سیاہ رنگ اس پہ کتنا چجتا تھا یہ بات اب وہ کس کو بتاتا ہو گا)
‎مگر جوتے۔۔۔
‎جوتے جاناں جدائی کے جاویداں جنگل کی جڑ میں جکڑ گئے ہیں
‎اور سردی سے میرے پیر کہرے کی مانند اکڑ گئے ہیں
‎جوتے خریدنا تب جیب پر دو گنا بھاری ہو جاتا ہے
‎آدمی جب کسی اپنے کے ساتھ سے بھی عاری ہو جاتا
‎میری سہیلی یہ سن کر آپے سے باہر ہو گئی
‎مجھے جوتا دلوانے کو بازاروں میں خوار ہو گئی
‎وہ بادلوں کی سیر کے دوران مجھ سے کہیں کھو گیا ہے
‎جسکو یہ بتانا ہے کہ جوتا خریدنا میرے لیے معمہ ہو گیا ہے
‎سہیلی کو خواری سے باز رکھ کر ملاقات کی میں نے عرض ڈالی ہے
‎کہ برف گِرنے سے پہلے تلک جوتا نہ لوں گی! یہ تو اب قسم کھا لی ہے
‎اس نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی فوراً
‎دیکھو پھر پہلے میں آؤں یا برف۔۔۔۔