اب کی بار وہ جدا کیا ہوا
جاڑے کا موسم آتے ہی
میرے ہینڈز فری ٹوٹ گئے
میرا چشمہِ سیاہ سمندر کی لہروں میں کہیں کھو گیا
اور میرے جوتے پھٹ گئے
ہینڈز فری کو میں نے سلوشن ٹیپ سے جوڑ لیا
اور دوسری جانب سے آواز نہ آنے کے خطرے کو
آئندہ کے لیے مول لیا
چشمہ تو خیر کسی انجان ساحل پر سیپیوں کے معصوم دلوں میں
ہجر کا خوفِ سیاہ جگاتا ہو گا
(سیاہ رنگ اس پہ کتنا چجتا تھا یہ بات اب وہ کس کو بتاتا ہو گا)
مگر جوتے۔۔۔
جوتے جاناں جدائی کے جاویداں جنگل کی جڑ میں جکڑ گئے ہیں
اور سردی سے میرے پیر کہرے کی مانند اکڑ گئے ہیں
جوتے خریدنا تب جیب پر دو گنا بھاری ہو جاتا ہے
آدمی جب کسی اپنے کے ساتھ سے بھی عاری ہو جاتا
میری سہیلی یہ سن کر آپے سے باہر ہو گئی
مجھے جوتا دلوانے کو بازاروں میں خوار ہو گئی
وہ بادلوں کی سیر کے دوران مجھ سے کہیں کھو گیا ہے
جسکو یہ بتانا ہے کہ جوتا خریدنا میرے لیے معمہ ہو گیا ہے
سہیلی کو خواری سے باز رکھ کر ملاقات کی میں نے عرض ڈالی ہے
کہ برف گِرنے سے پہلے تلک جوتا نہ لوں گی! یہ تو اب قسم کھا لی ہے
اس نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی فوراً
دیکھو پھر پہلے میں آؤں یا برف۔۔۔۔
برہنہ پائی کی نظم!
یہ تحریر 433 مرتبہ دیکھی گئی