بالما

یہ تحریر 2611 مرتبہ دیکھی گئی

میں اپنے بالما کو بلیو ایریا اسلام آباد سے رخصت کرنے کے بعد رات کو  جونہی قائد اعظم یونيورسٹی پہنچا تو حسین میر  فی الفور مجھے کہنے لگا بھئی وہ ایک دیو قامت مفکر ہیں اور ساتھ وسیع المطالعہ بھی، اتنا مطالعہ ہے اس انسان کا یار، میں تو اُسی وقت ورطہ حیرت میں پڑ گیا تھا۔۔۔۔ میں نے کریدنے کے انداز میں پوچھا وہ کیسے ؟ کہنے لگا صبح جب وہ ہمارے ہاں تشریف لائے تھے تو اس وقت سے لیکر شام تک تقریباً آٹھ گھنٹے علی الاستمرار وہ ہمارے ساتھ محوِ گفتگو رہے، ان آٹھ گھنٹوں میں، میں تو ان کی اپنی زبانی بتائی گئی حوالہ جاتی کتب کے بس نام ہی سنتا اور یاد کرتا رہ گیا، اور کتب بھی اُن کے حوالے جو فلسفہ و تاریخ کے مشکل ترین موضوعات پر مبنی ہیں۔ اس قدر کسی انسان کا مطالعہ یقیناً یہ بات مجھ ایسے نو آموز بالکے کے لیے واقعی حیران کن ہے۔

ہاں!

 دوران زبانی گفتگو کتاب پہ کتاب کا حوالہ دینا کوئی آسان کام تھوڑی ہوتا ہے، واقعی یہ حیران کر دینے والی شئے ہے، یہ بھی تو دیکھو کہ اس انسان نے اس علمی سفر کے لیے ایک لمبا وقت بھی تو صرف کیا ہے اور ایسے علمی کام واقعی طوالتِ وقت کی متقاضی ہوتے ہیں، میں نے یہ بات ہونٹ بھینچتے ہوئے کہی۔۔۔ساتھ ہی محسن کیانی نے بھی چند ایک دلآویز باتیں سنائیں جو اس نے دوران گفتگو محسوس کیں،اسی ذیل میں محسن اپنی کچھ یوں سناتا ہے: وہ ایک عمدہ انسان ہیں، میرے ہر سوال کا انہوں نے تسلی بخش جواب دیا اور ساتھ میرے سبجیکٹ تاریخ کے حوالہ سے چند ایک اہم کتابوں کے نام بھی بتائے کہ انہیں لازمی پڑھو۔ تکبر، گھمنڈ نام کی کوئی شئے نہیں ان میں، اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ یوں کلام کر رہے تھے جیسے ہم ان کے دیرینہ یار ہوں اور تکلفات کی دنیا بہت ہی پہلے کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہوں، فخر کی بات سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان کی صحبت میں بڑا محسوس کر رہے تھے، ساتھ یہ بھی کہ علی التوالی  ہر سوال ہم اُن سے کھلم کھلا پوچھ رہے تھے جن کے جوابات بھی وہ بہت ہی خوش اسلوبی سے دے رہے تھے، میں نے جہاں اُن کی شخصیت کو داخلی و خارجی طور پہ کافی آبزرو کیا وہیں یہ بات بھی میرے مطالعہ میں آئی کہ وہ دل کے بڑے نرم ہیں اور  گفتگو میں میرِ کلام ہیں۔

اب ہم تھوڑا پیچھے چلتے ہیں اور پہلے مذکورہ علی التسلسل کا متوازی رخ پیش کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے اپنی گذشتہ لکھت میں لکھا تھا کہ زکریا ہوسٹل میں اخبار پڑھتے ہوئے ایک دم نظر ان کے کالم پہ جا ٹھہری، بس پھر کیا تھا، کالم نے ہم سے اپنا آپ ٹھہر ٹھہر کر رک رک کر پڑھوایا۔۔۔۔اس کے بعد مثل نکلے تیری تلاش میں، تلاش کرتے کرتے بالآخر ہم نے اُن کو جا لیا۔تبھی تو درج بالا لطیف مدن گور باتیاں سننے کو ملیں اور جو حال خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اُس کی روداد الگ اور بیان سے باہر۔۔۔۔

ایک بار پھر پیچھے کو چلتے ہیں اور چند ایک علمی باتیں مٹیالے پَران کی آپ کو سناتے ہیں، آغاز دوستی میں، میں ان سے بہت سوں سوالات کیا کرتا، ایک روز میں نے اپنے بالم اُپدیشک سے پوچھا کہ نظریہ اور تھیوری میں کیا فرق ہے؟ کہتے ہیں:

”بہت باریک فرق ہے بھی اور نہیں بھی، تھیوری کسی بھی شئے (سماجی سائنسز ) وغیرہ کی تفہیم سے قدرے تجریدی سطح پر تشکیل دی جاتی ہے، اور اسے ان نظریات سے جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ قابل قبول ہو جائے۔ ویسے وسیع معنوں میں میرے خیال میں نظریہ یا تھیوری  میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔ سائنسز کے لیے تھیوری کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جبکہ نظریہ سیاسی آئیڈیالوجی کے طور پر۔“

ایک روز پھر کسی علمی موضوع پر ہماری بات ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ نے چند دن پہلے نظریہ اور تھیوری کے فرق کے متعلق پوچھا تھا، میں نے کہا جی ہاں، کہتے اس کے ساتھ ہی کچھ اور ایڈ کر لیں لیکن اسے نظریہ اور تھیوری کا مکمل طور پر حصہ نہ سمجھئے گا بلکہ یہ بات اسی سے تقریباً ملتی جلتی ہے اور آپ کے لئے نظریہ، بیانیہ اور مہابیانیہ کے حوالہ سے مفید ہو گی، بات ملاحظہ کیجیے:

” لفظ “بیانیہ” اور نظریہ یا آئیڈیالوجی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بیانیہ صرف ایک نیا لفظ ہے اور کچھ نہیں۔  فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے پہلی بار “مہا بیانیہ” کو مسیحیت، لبرل ازم، روشن خیالی اور سٹالن ازم کی وضاحت کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس نے سائنس کو بھی ایک بیانیہ کہا جو اساطیر یعنی مائتھالوجی سے مختلف ہے، اعلی نہیں۔  ہر وہ فلسفہ یا نظریہ جو “کلیت پسندی” کا دعویدار ہے، وہ “مہا بیانیہ” ہے۔ لبرل آئیڈیالوجی جس میں عقلیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہ اپنی سرشت میں “مہا بیانیہ” ہے۔ تشدد و دہشت، جبر و استحصال کا تعلق تو سماجی، طبقاتی تضادات کے ساتھ ہوتا یے، لیکن ہر مہا بیانیے کے وسط میں تشدد و دہشت سے ہم آہنگ ہونے کا رویہ موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح قوم پرستی، لسانی، نسلی، گروہی شناختوں کے اندر مائکرو سے آغاز کرتے ہوئے بڑا بیانیہ بننے کا رجحان ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ ہر وہ بیانیہ یا نظریہ یا آئیڈیالوجی جو وجود میں آگئی، وہ سماجی، سیاسی حالات کے تحت کسی بھی وقت بڑا بیانیہ بن کر دہشت و بربریت کی علامت بن سکتی ہے۔“

درج بالا شذرہ جہاں نظریہ، بیانیہ اور مہابیانیہ کو ڈسکس کرتا ہے وہیں اس کے حقیقی تانے بانے مابعد جدیدیت سے بھی جڑتے نظر آتے ہیں چونکہ مابعدجدیدیت، مہابیانیوں کو چیلنج کرتی ہے اور مائیکرو بیانیے کی نمائندہ نظر آتی ہے، یہاں ایک اہم نکتہ جو میرے اُپدیشک عمران شاہد بھنڈر نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ مائیکرو بیانیہ سے آغاز کریں تو اس کے اندر مہابیانیہ بننے کا رجحان ہمہ وقت موجود رہتا ہے، ہر وہ بیانیہ یا نظریہ جو وجود میں آ گیا وہ سماجی و سیاسی حالات کے تحت کسی بھی وقت وہ بڑا بیانیہ بن کر دہشت و بربریت کی علامت بن سکتا ہے۔

 ”لا“ کے آغاز میں ہی پہلے پہلے سوالات میں سے ایک سوال میں نے ”علم“ کے متعلق ان سے یہ پوچھا تھا کہ علم بذات خود کیا ہے اور علم کے حصول کا پراسیس کیا ہے؟ کہتے کہ اس کا جواب آپ کو بے مثل فلسفی کانٹ سے لے کر دیتا ہوں، کانٹ ”علم“ کے متعلق کچھ یوں کہتا ہے :

“ہمارے کل علم کا آغاز حواس سے ہوتا ہے، حواس سے فہم (انڈرسٹینڈنگ) میں پہنچتا ہے اور فہم سے عقل (ریزن) میں، جس سے برتر صلاحیت (فیکلٹی) ہمارے ذہن میں اور کوئی نہیں ہے۔ اس طرح مشاہدے کا مافیہا (کونٹینٹ) ایک ترتیب کے تحت وحدتِ خیال کے تحت آجاتا ہے۔”

بالما اپنے الفاظ میں اس اقتباس کی صراحت کچھ اس طور سے کرتے ہیں اور ساتھ چند ایک نکات پہ توجہ بھی دلاتے  ہیں، کہتے کہ یہ کانٹ کے وہ بے مثل الفاظ ہیں جو اس کی تھیوری آف نالج کی بنیادوں کو واضح کرتے ہیں۔ اگر ہم ان میں حس، فہم اور عقل کے تفاعل (فنکشن) کو سمجھ لیں تو ہم کانٹ کی تھیوری آف نالج کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔

مزید بتایا کہ ایک بات ذہن میں رہے کہ کانٹ خود کہتا ہے کہ عقل (ریزن) کے دو طرح کے استعمال ہیں: ایک فارمل، لاجیکل یا منطقی جس میں ریزن علم سے سروکار نہیں رکھتی، جبکہ دوسرا استعمال “مادی” ہے، جس کے تحت عقل کے اندر سے تصورات پیدا ہوتے ہیں جن کا حواس اور فہم سے تعلق نہیں ہوتا، مطلب یہ کہ یہ تصورات قبل تجربی ہیں اور عقل کا اپنا تفاعل ہیں۔ کانٹ ان تصورات کو مادی کیوں کہتا ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے، لیکن اتنا ہی مشکل بھی ہے، اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ اس نکتے کی بھی وضاحت کر سکیں۔ ہمیں اس بحث میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا، بلکہ صرف یہ جاننا ہے کہ حس سے حاصل شدہ مواد پر فہم کیا کام کرتی ہے اور فہم میں جگہ پانے کے بعد عقل اس فہم پر کون سے تصورات کا اطلاق کرتی ہے، تاکہ علم کی ایک شکل ہمارے سامنے آ سکے۔“

ہم اس آخری بحث میں اُٹھائے گئے سوالات کے جوابات اُنہی کے الفاظ کے ساتھ اگلی تحریر میں آپ کے سامنے پیش کریں گے اور ساتھ کچھ غیر رسمی باتیں بھی ہوں گی تب تک آپ ان سوالات پہ غوروفکر جاری رکھیں۔۔۔۔