ایک طویل نظم

یہ تحریر 365 مرتبہ دیکھی گئی

میں پیدائشی طور پر پرندہ صفت آوارہ تھی
نہ جہانگردی میری گُھٹی میں شامل تھی
مگر آج سے ٹھیک نو برس پہلے
حوادث کی دنیا میں
ایک ایسی ہوا چلی
جسکے دوش پر اڑتی اڑاتی میں
پرندوں کے ایک جُھنڈ میں پہنچی
جہاں کالی چونچوں والے
کئی سیانے کوؑے رہتے تھے
جو وقت کی ڈالی سے میوے چنتے
رَس کی آخری بوند تک انکی جُگالی کرتے
اور پھر انکو تھوک دینے کے
مسلسل جاری عمل میں
خود کو تھکاتے تھے
(یاد رہے مسلسل جاری عمل میں
وقت کی ڈالی پر کھِلنے والے میوے
پٹیکولر ایوینٹ ہوتے ہیں
اور تسلسل کے جہان میں
پٹیکولیریٹی کی عمر بہت کم ہوتی ہے)
خیر، سیانے کوؤں کی بستی میں
کائیں کائیں کی مستی میں
میں نے بھی کئی خالی گھڑوں میں
کنکر پھینکے
اور رنگ رنگ چشموں کے
پانی چکھے
پیاس کے نہ بجھنے میں
ٹیسٹ بڈز کی خرابی معمور نہ تھی
بلکہ یہ اختراع میرے دماغ کا تھا
جس بھول میں مَیں نے ممنوعہ درخت سے پھل کھائے
اس میں قصور میرے پرکھوں کے لگائے ایک باغ کا تھا
(۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )
پھر کیا تھا کہ
اجڑے مَن کی پیاس بجھانے
پیاسے جی کو ہاتھ میں تھامے
میں تِھِڑ گئی سیانوں کی ڈار سے
‘جیسے بچھڑی ہو کونج قطار سے’
اب گھر ڈِٹھے نہ گھر والا کوئی
میں پَھڑ پَھڑ پھڑکوں دیار میں
جنگل مجھے بلاتا تھا کہ گھر ہے تیرا پہاڑ میں
(جہاں پُرکھوں کا اک باغ بھی ہے)
اور دریا مجھ کو کہتا تھا
اے بنتِ سبیل تُو غور سے دیکھ
اور آنکھیں اپنی کھول کے دیکھ
اِن لانبے لانبے چیڑوں میں
ایک پَیڑ ہے تیرے نام کا بھی
جس پہ رات کے پچھلے پہروں میں
کوئی بوڑھے، دانا، مفکر سے
الؑو بسیرا کرتے ہیں
جگ سارا جب سو جاتا ہے
وہ ‘ھُو’ کی لاگ میں جگتے ہیں
تُو اٹھ اس پَیڑ کی کھوج میں جا
اُلوؤں کو اپنی کتھا سنا
حوادث کی اس دنیا میں
ایک بار پھر سے ہوا چلی
اور جنگل، بیلے سے ہوتے ہوئے
میں نے سات پُل پیدل کراس کیے
اُلوؑوں کے بسیرے والے پَیڑ پہ
جا کے پلکوں سے دستک دی
اس پٹیکولر مومنٹ میں، وقت کی ڈالی پر
جو اُلؑو اس پل بیٹھا تھا
وہ اپنے تیئں نجانے کب سے
میرا ہی منتطر لگتا تھا
حوادث کی اس دنیا میں
سانحہ اک اور پھر رقم ہوا
پہلے پہل تو اُلؑو کو
میرے ماضی سے اک چِڑ سی تھی
کہ ‘تیری کالی رات سی آنکھوں میں
کوؤں کی بازگشت گونجتی ہے’
پھر میں نے اور اُلؑو نے مل کر
اک آلنہ اپنا ‘تیار’ کِیا
تنکے زمیں سے مستعار لیے
آسماں سے سورج ادھار لیا
رات سے چاند کو مانگ لیا
اور دن سے پھول چرا لیا
خشبو بھرے اس روشن کدے کو
جب اپنا ہم نے مان لیا
تو حوادث کی اس دنیا میں
جھپاک سے دھماکہ ہوتا ہے
اُلؑو کی آنکھ کی کھڑکی سے
خوابوں کے ٹکڑے گِرتے ہیں
غُلیل کا نشانہ چُوک گیا
یا عین ہدف پہ آکے لگا؟
سوالی جوابی وضاحتوں کی
مہلت سے پہلے پہلے ہی
تسلسل کے اس جہان میں
یہ واقع ماضی ہو گیا تھا
اور الوں کے بسیرے والا پَیڑ
اور بھی بوڑھا ہو گیا تھا
تِنکوں کے بنے اس آلنے پہ
برفیں بھی پڑیں، بوندیں بھی گِریں
طوفاں گزرے، آندھی بھی چلی
ایک نیلے خوف میں لِپٹی ‘چُپ’
میری آنکھ کے پردے پہ جمتی گئی
نہ میں اٹھی، نہ پَیڑ ہلا
کئی موسم ہم پہ بیت گئے
حوادث کی اس دنیا میں
اک دن سورج کے ڈھلتے ہی
جب شام کا تارا آ نکلا
تو تقدیر کا مارا باز کوئی
جو اپنی پرواز میں مستایا ہوا
‘موجود’ کی بے ثباتی سے اکتایا ہوا
عارضی سے پڑاؤ کی خاطر بھی
اپنے شایانے شان پَیڑ کو انتخابتا ہے
اور اپنی قلندرانہ نگاہوں سے
میرے ویراں آلنے کو بھانپتا ہے
میری آنکھ میں خوف کے تودے ہیں
ہونٹوں پہ نیلی چُپی ہے
وہ پرندوں میں شاہی پرندہ ہے
سو بغیر کسی تمہید کے ہی
وہ نظریں مجھ میں گاڑھتا ہے
خوف کے تودوں کو چیرتا ہوا
نیلا تالا کاٹتا ہے
میرے اندر سے اک غیر مانوس
صدا جنم لیتی ہے
جسکی گونج سے بوڑھے چیڑ کی
شاخ ہری ہو جاتی ہے
آسماں مینہ برساتا ہے
اور میں کھلکھلا کر ہنستی ہوں
باز کو بازو پہ رکھ کر
میں جنگل جنگل اڑتی ہوں
دریا کنارے کی مِٹی میں
جامنی پھول اُگاتی ہوں
باز اپنی پرواز میں مست
شام کے تارے پہ مرتا ہے
جب دیکھو آسمانوں میں
وہ اُسکا طواف کرتا ہے
میں زمین پہ بیٹھ کے تکتی ہوں
اور جامنی پَتیاں چنتی ہوں
وہ جب بھی زمین پہ آتا ہے
میں کھلکھلا کر ہنستی ہوں
میری ہنسی کی گونج میں
اک آواز سے باز کو چِڑ سی ہے
وہ میری آنکھ میں جھانکتا ہے
اور چِڑ کر مجھ کو کہتا ہے
‘تیری نیلی رات سی آنکھوں میں
اُلؑو کی بازگشت گونجتی ہے’
اس بات کا کوئی جواب نہیں
حوادث کی اِس دنیا میں
میں جانتی ہوں تم پرندوں کے
قبیلے میں سب سے معتبر ہوئے
جسکی شاہی طبیعت پر
اک انچاہی سی گونج بھی
گِراں گزرا کرتی ہے
‘پر چشم تو جاناں چشم ہے
جسکا کام ہی کچھ ایسا ہے
کہ بیتے ہوئے لمحوں کی بازگشت میں فنا ہو جائے
اور آنے والے ہر رنگ میں اُسکو چاہیئے کہ وا ہو جائے’
حوادث کی اس دنیا میں
آج خالی بانہیں سمیٹ کر
تنکوں کے ویراں آلنے سے
شام کے تارے کو دیکھ کر
میں خود سے مسلسل پوچھ رہی ہوں:
تیری ساری مسافت میں
“خدا اخر کہاں پہ تھا”