ایک خوش فکر شاعر

یہ تحریر 2717 مرتبہ دیکھی گئی

عروس البلاد کراچی سے تعلق رکھنے والے خوش فکر شاعر صابر ظفر کے مجموعے کا نام ہے :

“دیوار پہ چاک سے لکھا ہوں”

یہ صابر ظفر کا تازہ بیالیسواں شعری مجموعہ ہے ۔۔۔۔صابر ظفر کوئی مشاعرے باز شاعر نہیں ۔۔ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو مشاعرے باز کی ترکیب اچھی نہ لگی ہو ۔۔۔میرے نزدیک مشاعرہ ہندو پاک  کی ایک صدیوں پرانی شاندار تہذیبی روائت تھی جو ہم تک پہنچی مگر اب مشاعرے میں بہت سی خرابیاں در آئی ہیں ۔ ہندوستان میں عمومی طور پر اور پاکستان میں کہیں کہیں مشاعروں میں عجیب و غریب کرشمے دیکھنے کو ملتے ہیں اور شاعر شاعر کی بجائے ایک حظ کار (Entertainer)زیادہ نظر آتا ہے شعر کا پہلا مصرع کئی کئی بار دہرایا جاتا ہے اور ایسے ایسے جملے بھی ادا کیے جاتے ہیں کہ آدمی ورطہ حیرت میں گم ہو جائے یعنی شاید یہ خیال اس سے پہلے آپ نے نہ سنا ہو ۔۔۔شاید میں اپنی بات آپ تک پہنچا پاوں ۔۔۔خدا کرے میری بات آپ تک پہنچ پائے۔۔ اگر میری بات آپ تک پہنچ پائی تو میں سمجھوں گا کہ آج کا مشاعرہ کامیاب رہا ۔اس سے اچھا مجمع اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھا اور اسی لیے میں آپ سے مخاطب ہوں تو لیجیے ایک غزل سے پہلے ایک مطلع اور دو شعر آپ کی سماعتوں کی نذر وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔پھر اشعار کی خواندگی کے درمیان بے محل لطیفوں اور چٹکلوں کی پیوند کاری اور ساتھ ساتھ اکثر و بیشترترنم کا تڑکا بھی۔۔۔اور سامعین بھی ہاتھ لہرا لہرا کر نیم استادہ ہو ہوکر داد دیتے ہیں اب مشاعروں میں تالیاں بھی پیٹی جاتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعروں کے ہاں تعلی کے مضامین بھی ملتے ہیں لیکن تعلی کا بھی کوئی قرینہ ہوتا ہے مگر اب تو ایسے شعر بھی سننے کو ملتے ہیں :

میر و عالب سے کہہ دو ہم بھی شعر کہتے ہیں

وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے۔

اور ایسےتعلی آمیز شعر ایسے شاعروں کے منہ سے سننے کو ملتے ہیں جو میر و غالب کے پاو پاسنگ بھی نہیں ہوتے اور جن کے اپنے ہاں کوئی فکری عنصر بھی نہیں ہوتا بلکہ ان کی ساری گزر بسر عامیانہ اور پیش پا افتادہ مضامین پر ہوتی ہے۔

میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شاعر ، شاعری اور سامعین کی مثلث کے زاویوں کو  ایک حد تک مشاعرے نے خراب بھی کیا ہے اور ایسے میں وہ شاعر جو چٹکلے باز نہیں ہوتے مشاعروں سے دور رہ کر بھی خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں ۔

صابر ظفر کا یہ  غزلوں کا مجموعہ ہے انہوں نے ہر چند  گیت وغیرہ بھی لکھے ہیں مگر وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ۔۔۔زیر نظر مجموعے میں 118 غزلیں شامل ہیں پانچ شعروں سے چھوٹی کوئی غزل نہیں اور تین چار بہت طویل غزلیں بھی موجود ہیں جن میں اشعار کی تعداد بیس سے لے کر پینسٹھ تک بھی ہے۔

دھل جاوں گا اگلی بارشوں میں

دیوار پہ چاک سے لکھا ہوں

اس شعر کے مصرع ثانی کو مجموعے کا عنوان بنایا گیا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور انسان کے فانی ہونے کا مضمون شاعروں کے ہاں عام و خاص  رہا ہے اور اس شعر میں بھی یہی مضمون باندھا گیا ہے۔ایک دو غزلیں چھوٹی بحر میں ایسی بھی ہیں جو سہل ممتنع کے ذیل میں آتی ہیں ۔

صابر ظفر کے شعر ہر چند چکا چوند پیدا کرنے والے نہیں مگر ان کے ہاں ایسے بہت سے شعر ہیں جو فکر انگیز ہیں اور پڑھ کر غور کرنے پر ان کے معانی کی تہیں کھلتی ہیں ۔

شاعروں کی کئی قسمیں ہیں بعض بہت پر گو اور بعض بہت کم گو ہوتے ہیں ۔۔مجرد پر گو ہونا یا صرف کم گو ہونا کوئی صفت نہیں اصل چیز خوش گوئی اور خوش فکری ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ صابر ظفر ایک خوش گو اور خوش فکر شاعر ہیں۔ان کے پہلے دس شعری مجموعوں پر مشتمل ان کے کلیات کی پہلی جلد” مذہب عشق “کے نام سے چھپ چکی ہے۔۔زیر نظر مجموعے میں سے چند اشعار مگر اس سے پہلے اس کتاب کے ٹائٹل کے بارے میں ایک بات کہ یہ بظاہر بے رنگ سا  ہے مگر اس کی سادگی میں ہی اس کا اصل کمال ہے کہ اس میں  زندگی کی بے ثباتی پوری طرح عیاں اور اظہر من الشمس ہے۔۔۔۔

مشتے از خروارے دو چار شعر:

اب تم جو بھی چاہو کہنا

افسانہ تھا ختم ہو چکا ہوں

جنہیں ٹھرنا نہیں چاہیئے تھا ٹھرے ہیں

وہ جن کو جانا نہیں چاہیئے تھا، ہائے گئے

قریب تر تھے مرے لوگ زندگی سے ظفر

اسی لئے وہ سبھی مقتلوں میں لائے گئے

ہمارے شہر اجل زاد ہو کے رہ گئے ہیں

دمشق و کوفہ و بغداد ہو کے رہ گئے ہیں

میں ترے خیال سے ہوں پہلے

آغاز سے یعنی پیشتر ہوں

یہ ہونٹ ابھی الگ نہ کرنا

بوسے کو سنوار کر تو دیکھو

                   ۔۔۔

“دیوار پہ چاک سے لکھا ہوں”

ناشر: ھرنگ ادب پبلی کیشنز اردو بازار کراچی۔

صفحات 120 قیمت 300 روپئے