بے سمتی کے دن

یہ تحریر 1557 مرتبہ دیکھی گئی

شاعر :عرفان شہود

 تعارف : قاضی ظفراقبال

 یونان قدیم کے بزرجمہروں نے ڻریجڈی ڈرامے کو کامیڈی ڈرامے پر ترجیح دی تھی کہ اس سے کتھارسس کی ایک صورت پیدا ہو جاتی ہے جس سے آدمی کچھ دیر کے لیے ہی سہی غم حیات سے مخلصی حاصل کر لیتا ہے ۔۔۔۔عرفان شہود کی نظمیں پڑھ کر سب سے پہلا تاثر یہی ابھرتا ہے کہ اس کی بیشتر نظموں پر غم و آلام کی ایک مہین سی چادر تنی ہوئی ہے جو اس کی نظموں کے ناموں یعنی پھوہڑی ، نا دیدہ موت، پرسہ اور سوارہ سے بھی واضح ہے ۔

مشاہدہ شاعر کی زندگی کا جزو لا ینفک ہے اور یہ اس کے نام کا حصہ بھی ہے اور وہ اپنے مشاہدے سے ایسی محاکاتی تصویر کاری (Imagery picturesque ( تخلیق کرتا ہے جو انکھ کے راستے آئینہ دل پر مرتسم ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔ عرفان شہود بنیادی طور پر ایک سامر ہے جو الاو کے گرد بیڻھے دم بخود سامعین کو اپنی قصہ در قصہ کہانیوں سے مسحور کرتا چلا جاتا ہے۔

یہاں دو نظموں کا ذکر ضروری ہے ۔۔۔نظم” خود لذتی” ایک نفسیاتی الجھن کے گرد گھومتی ہے جس کے لیے بہت سی علامتوں کا سہارا لیا گیا ہے ۔۔ایسے موضوعات پر کچھ لکھنا در حقیقت تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے جس سے ذرا سا انحراف شاعر اور قاری دونوں کو اندھی دلدل میں گرا سکتا ہے ۔۔۔۔میرا جی کی نظم” لب جوئبار ” اسی موضوع پر ہے جس کے آخری شعر :

“ہاتھ آلودہ ہے ،نم دار ہے ، دھندلی ہے نظر

 ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے”

 کے بغیر یہ نظم بعید از فہم الفاظ کا ایک عجیب سا گورکھ دھندہ ہے مگر زیر نظر کتاب یعنی “بے سمتی کے دن ” کے شاعر نے اپنی نظم مگر زیر نظر کتاب یعنی “بے سمتی کے دن ” کے شاعر نے اپنی نظم کا تانا بانا کمال مہارت سے بنا ہے ۔۔۔ ایمائیت کا التزام جس سے نظم شائستگی سے انحراف برتتی ہوئی بہت واضح بھی نہیں ہوتی اور مجرد ابہام کی حدوں کو بھی نہیں چھوتی۔۔۔ذرا ان لائنوں پر غور کیجیے۔

“کہانی سدا بہتے دریاوں کے ساتھ رہنے سے ہو گی

مگر ہم کہانی سے باہر کے مجنوں سمجھتے کہاں ہیں

کہ گرتی ہوئی آبشاروں کی اپنی روانی

کسی اصل کے ساتھ بہنے سے ہوگی

رکی ندیوں کی تو کوئی کہانی نہیں ہے

خیالوں کی کھائی میں گل کھل بھی جائیں

تو بے اعتنائی کے کیڑوں کے انبار رس  چوستے ہیں”

دوسری نظم” شالاط” ہے جو نظم کے ایک با کمال مگر غریب الدیار تنہا شاعر سے ایک جرمن خاتون کی رفاقت کے پس منظر میں لکھی گئی ہے جس کی رفاقت سے شاعر کی روح کے تار جھنجھنا اٹھے تھے مگر بقول وارث شاہ “کون گیاں نوں موڑ لیاوندا ای “…. اس خاتون کو جانا تھا سو وہ چلی گئی اور منتظر شاعر چیختا رہ گیا۔

 “تم پھر نہ آ سکو گی بتانا تو تھا مجھے

تم دور جا کے بس گئی میں ڈھونڈتا پھرا”

مجھے یقین ہے کہ اس نظم :

 “تراسی دنوں کی انوکھی رفاقت

زبانوں کی دو اجنبیت نہ حائل ہوئی تھی

فنون محبت سے انجان ہو کر بھی گھائل ہوئی تھی

کسے کھوجتی تھی ؟”

نے مجید امجد کی روح کو تہ گور بھی گدگدا دیا ہو گا۔

عرفان شہود ایک خوبصورت شاعر ہے جس نے اپنی نظموں میں خوبصورت منظر نامے عکس بند کئے ہیں ۔۔۔  یہ نظمیں بائسکوپ کا ایک جادوئی ڈبہ ہے بس اس کے سوراخ سے آنکھ لگائیے اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے منظر دیکھتے جایئے۔۔۔۔بقول غالب:

“چشم کو چاہیئے ہر رنگ میں وا ہو جانا “

 بے سمتی کے دن (نظمیں)

ناشر : صریر پبلیکیشنز لاہور

قیمت : 680 روپئے